Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

ترانہ دکن سکندر علی وجد

  ترانہ دکن        سکندر علی وجد

ترانہ دکن  سکندر علی وجد

شاعر کا تعارف:

    سکندر علی وجدؔ(1914-1983) دکن سے تعلق رکھنے والے اردو کے مشہور شاعر گزرے ہیں۔22جنوری1914ء کو ضلع اورنگ آباد(حیدرآباد دکن ) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اورنگ آباد میں ہوئی اور وہیں شاعری کا آغاز کیا۔1935ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان کامیاب کیا۔1939ء میں سیول سرویس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور عدالتی محکمہ میں تربیت حاصل کرنے کے بعد سیشن جج کے منصب پر فائز رہے۔
    وجدؔ نے غزلیں بھی کہیں اور نظمیں بھی۔ غزل میں ان کے موضوعات حسن و عشق اور وارداتِ قلبی ہے۔ لیکن بنیادی طور پر وجدؔ نظم کے شاعر ہیں۔ اپنے عہد کے سیاسی حالات اور سماجی و طبقاتی کشمکش کو انہوں نے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ان کی شاعری کا منظر کافی وسیع ہے۔ انہوں نے انسانی عظمت۔ ہندوستان کی تاریخ۔سیاست اور فنون لطیفہ کو اپنی نظموں میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا۔انہوں نے زندگی کے مشاہدات اور ذاتی تجربات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔

    وہ فن شعر کے اصولوں کی پابندی کرتے ہیں۔سادگی روانی ان کے کلام کی اہم خصوصیات ہیں۔ان کی نظموںکا انداز بیان بہت ہی دلکش ہوتا ہے۔رقاصہ۔نیلی ناگن۔آثار سحر۔ خانہ بدوش۔معطر لمحے۔تاج محل اور جامعہ عثمانیہ ان کی مشہور نظمیں ہیں۔ لہو ترنگ۔ آفتاب تازہ۔اوراق مصور اور بیاض مریم ان کے کلام کے مجموعے ہیں۔وہ قومی یکجہی اور ہندوستانی تہذیب کے علمبردار رہے۔16مئی1983کو ان کا انتقال ہوا۔

نظم ترانہ دکن

قدرت نے جس کو علم وفضل و ہنردیا تھا
جوش عمل دیا تھا ذوق نظر دیا تھا
حیران تھا زمانہ وہ کر و فر دیا تھا
فطرت نے جس کی شب کو نور سحر دیا تھا
یہ ہے دکن ہمارا پیارا وطن ہمارا

ہندو پجاریوں نے جس کو گلے لگایا
رعنائیوں نے جس کی بدھ مت کا دل لبھایا
حصے میں جس کے گنجِ بندہ نواز ؒ  آیا
اردو زبان کو جس نے جینے کا گر سکھایا
یہ ہے دکن ہمارا پیارا وطن ہمارا

ہر سمت گونجتا ہے اخلاص کا ترانہ
تقسیم ہورہا ہے کیف مئے شبانہ
ہندوستان میں جس کا اونچا ہے آستانہ
حیرت سے تک رہا ہے جس دیس کو زمانہ
یہ ہے دکن ہمارا پیارا وطن ہمارا

قندیل جسجتو پھر سینوں میں جل رہی ہے
رسم کہن کی بیڑی آخر پگھل رہی ہے
انسانیت مقدس سانچے میں ڈھل رہی ہے
اک مرد قوم جس کی گودی میں پل رہی ہے
یہ ہے دکن ہمارا پیارا وطن ہمارا

اسلاف کی امانت اخلاص کی نشانی
گنجینہ اخوت دریائے شادمانی
صدق وفا کا مسکن الفت کی راجدھانی
جس میں دلوں پہ آصفؔ کرتے ہیں حکمرانی
یہ ہے دکن ہمارا پیارا وطن ہمارا

خلاصہ نظم:

    سکندر علی وجدؔ (1914-1983) جامعہ عثمانیہ کے نامور سپوت اور دکن کے نامور اردو شاعر گزرے ہیں۔ انہوںنے اپنی نظموں کے ذریعے قومی یکجہتی اور وطن سے محبت کے جذبے کو پروان چڑھایا ہے۔ ان کی ایک مشہورنظم’’ ترانہ دکن ‘‘ ہے۔ جس کا خلاصہ اس طرح ہے۔
    سکندر علی وجدؔ نے نظم’’ ترانہ دکن‘‘ میں جنوبی ہندوستان کے مشہور علاقہ دکن کی تعریف کی ہے۔ اورترانہ کے انداز میں اس علاقے کی عظمت کو اجاگر کیا ہے۔ وجد ؔ ترانے کے پہلے بند میں کہتے ہیں کہ قدرت نے دکن کے علاقے کو علم و فضل اور ہنر دیا تھا۔ دکن کا علاقہ زمانہ قدیم سے صوفیائے کرام‘شعرا‘ادیبوں اور علماء کا مسکن رہا ہے۔ یہاں جامعہ عثمانیہ جیسی عظیم مادر علمیہ قائم ہوئی ۔ جس نے ساری دنیا میں دانشوروں کو پہونچایا۔ وجدؔ کہتے ہیں کہ دکن کے لوگوں میں خدا نے عمل کی قوت اور نظر کا ذوق تھا۔ یہ عمل کی قوت تھی کہ قطب شاہی دور میں حیدرآباد شہر بسایا گیا۔

     چارمینار اور مکہ مسجد کی تعمیر ہوئی اور نظام دور حکومت میں جامعہ عثمانیہ۔عثمانیہ دواخانہ۔ سالارجنگ میوزیم۔ہائی کورٹ۔ حسین ساگر اور عثمان ساگر جیسی عظیم یادگاریں بنائی گئیں۔ دکن کے بادشاہوں نے اپنی نظر کے ذوق سے شمالی ہند سے عظیم شخصیات کو مدعو کیا جنہوں نے شعر و ادب اور علم وہنر میں یہاں خوب نام کمایا۔ وجدؔ کہتے ہیں کہ یہاں کے بادشاہوں کی شان و شوکت سے دنیا حیران تھی۔ نظام حیدرآباد کے زیوارات‘ ان کے محلات اور ان کے کارناموں سے آج بھی دنیا حیران و پریشان ہے کہ اس طرح کی ترقی انہوں نے کس طرح حاصل کی تھی۔وجدؔ کہتے ہیں کہ دکن وہ سرسبز و شاداب علاقہ ہے جہاں رات میں بھی دن کا سماں رہتا ہے۔ صنعتی ترقی نے یہاں رات کو روشنی سے منور کردیا تھا۔ اتنی خوبیوں والے علاقے کو شاعر ہمارا پیاراوطن دکن کہتے ہیں۔ دکن کی تعریف کرتے ہوئے شاعر ہر زمانے میں لوگوں کو اپنے وطن سے پیار کرنے اور وطن کی عظمت کو یاد رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔
    نظم’’ ترانہ دکن‘‘ کے دوسرے بندمیں وجدؔ حیدرآباد دکن کی مزید تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں کے سلاطین اور عوام نے ہندو پجاریوں کو اپنے گلے لگایا۔ دکن کی تاریخ شاہد ہے کہ یہاں نظام دور میں مذہبی رواداری عام تھی اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی آگے بڑھنے اور زندگی گزارنے کے مواقع دستیا ب تھے۔ چنانچہ وجدؔ کہتے ہیں کہ یہاں کی دلکشی نے بدھ مت کے ماننے والوں کو بھی یہاں بسنے کی طرف راغب کیا۔دکن کا علاقہ ہمیشہ صوفیائے کرام اور بزرگان دین کا گہوارہ رہا۔ 

    دکن کے علاقے کی خوش نصیبی ہے کہ یہاں گلبرگہ کی سرزمین پر حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ نے اپنے علم و فضل کو عام کیا۔ اور آج بھی ان کے روضے پر لاکھوں بندگان خدا دعائوں اور مرادوں کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں۔ وجدؔ دکن کی مزید تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس علاقے میں اردو زبان نے پرورش پائی۔ اور دکن کے شعر و ادب میں اردو ادب میں داستان۔ مثنوی اور غزل جیسی اصناف کو ترقی دی۔ ان سب باتوں پر فخر کرتے ہوئے شاعر وجدؔ کہتے ہیں کہ اتنی خوبیوں والا علاقہ میرا وطن دکن کا علاقہ ہے۔
    نظم ’’ ترانہ دکن‘‘ کے تیسرے بند میں شاعر وجدؔ اپنے وطن کی مزید تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دکن وہ علاقہ ہیں جہاں کے لوگوں میں خلوص و محبت‘ بھائی چارہ اور آپسی اتحاد مثالی ہے۔ یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے تہواروں میں جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں ۔ عید رمضان ہو کہ ہولی ‘دیوالی اور دسہرہ سب مل کر خوشی سے مناتے ہیں۔یہاں کے راجائوں نے لوگوں میں آپسی بھائی چارے کے سبق کو عام کیا ہے۔اور یہاں کی قومی یکجہتی نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں مشہور ہے اور آج بھی دکن کے لوگ دنیا کے جس علاقے میں رہتے ہیں وہ حیدرآبادی امن اور بھائی چارے سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔اس طرح شاعر دکن کو امن و آشتی کا گہورا قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اتنی خوبیوں والا دکن کا علاقہ ہمارا وطن ہے۔
    نظم’’ ترانہ دکن‘‘ کے چوتھے بند میں شاعر وجدؔ کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے جذبہ ہے۔ لوگ پرانے رسم و رواج کو ترک کرتے ہوئے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہورہے ہیں۔ جامعہ عثمانیہ کے فرزندان اس کی مثال ہیں جنہوں نے اپنے علم و فضل سے ساری دنیا میں علم کی روشنی کو عام کیا۔ شاعر کہتے ہیں کہ یہاں انسانیت کا سبق پڑھایا گیا اور یہاں پلنے والے لوگ بہادر اور جان باز ہیں۔ اس طرح وجد نے اپنے وطن دکن کی تعریف کی ہے۔
     نظم’’ ترانہ دکن‘‘ کے آخری بند میں شاعر وجدؔ کہتے ہیں کہ یہاں کے اسلاف نے اخلاص اور بھائی چارے کی جو امانت لوگوں کو سونپی ہے بعد میں آنے والی نسلوں نے اس خزانہ کی قدردانی کی ہے اور آج بھی دکن کے علاقے میں اخلاص و بھائی چارہ عام ہے۔یہاں کے لوگ سچائی ‘محبت اور امن سے رہتے ہیں اور اس کی زندہ مثال آصفؔ سابع میر عثمان علی خان بہادر کا دور ہے جس نے حیدرآباد دکن کو ساری دنیا میں ایک مثالی ریاست بنایا۔ یہ پیارا دکن ہمارا وطن ہے۔ یہی وہ دکن کا علاقہ ہے جسے ہم آج تلنگانہ کہتے ہیں۔ اس تلنگانہ میں ایک مرتبہ پھر نئے حکمرانوںکے ذریعے ماضی کی اچھی قدروں کو پروان چڑھایا جارہا ہے اور ایک مرتبہ پھر دکن کا علاقہ اپنے ماضی کی عظمتوں کا اعادہ کر رہا ہے۔اور دنیا کے سامنے ایک مثالی ریاست بن کر ابھر رہا ہے۔
مرکزی خیال: نظم’’ ترانہ دکن‘‘ میں فرزند دکن نامور شاعر سکندر علی وجدؔ نے دکن کے علاقے کی عظمتوں کو اجاگر کیا ہے۔ یہاں کے قدرتی خزانوں‘یہاں کے عظیم انسانوں‘یہاں کی گنگا جمنی تہذیب‘خلوص و بھائی چارہ اور یہاں کے حکمرانوں کی رواداری کا ذکر کرتے ہوئے شاعر نے اس عظیم وطن دکن کو دنیا کا عظیم علاقہ قرار دیا ہے اور یہاں رہنے والے لوگوں کو سبق دیا ہے کہ دکن کے ماضی کی عظمتوں کو یاد رکھیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔
    فرہنگ
    اخلاص        :    خلوص ۔محبت
    کیف        :    نشہ۔سرور۔مستی
    مئے        :    شراب
    شبانہ        :    رات۔شب
    کیف مئے شبانہ    :    رات کی شراب کا نشہ
    آستانہ        :    ٹھکانہ۔بزرگوں کے رہنے کی جگہ
    کروفر        :    شان کے مطابق۔ شان و شوکت سے
    نور سحر        :    صبح کی روشنی
    رعنائی        :    خوبصورتی۔حسن
    بدھ مت        :    گوتم بدھ کا نظریہ عقیدت
    بندہ نوازؒ        :    حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز۔جن کا آستانہ دکن کے شہر گلبرگہ میں ہے۔
    گر        :    فن۔انداز۔ہنر۔ترکیب
    قندیل        :    چراغ ۔روشنی حاصل کرنے کی ڈبی
    کہن        :    پرانا۔قدیم
    رسم کہن        :    پرانی رسم
    اسلاف        :    باپ دادا۔ پرکھے ۔
    گنجینہ        :    خزانہ
    اخوت        :    محبت ‘بھائی چارہ
    شادمانی        :    خوشیاں‘خوشی
    گنجینہ اخوت    :    محبت کا خزانہ
    صدق و وفا        :    سچائی اور پاکیزگی
    مسکن        :    ٹھکانہ۔رہنے کی جگہ
    الفت         :    محبت
    آصفؔ        :    آصف جاہی دور حیدرآباد کے آخری بادشاہ میر عثمان                 علی خان جن کا تخلص آصفؔ تھا۔

سوالات

I     بند مکمل کیجئے اور مشکل الفاظ کے معنی لکھئے۔

    1۔
    قدرت نے جس کو علم وفضل و ہنردیا تھا
جوش عمل دیا تھا ذوق نظر دیا تھا
حیران تھا زمانہ وہ کر و فر دیا تھا
فطرت نے جس کی شب کو نور سحر دیا تھا
یہ ہے دکن ہمارا پیارا وطن ہمارا
    الفاظ            معنی
    اخلاص        :    خلوص ۔محبت
    کیف        :    نشہ۔سرور۔مستی
    مئے        :    شراب
    شبانہ        :    رات۔شب
    2۔    
    ہندو پجاریوں نے جس کو گلے لگایا
رعنائیوں نے جس کی بدھ مت کا دل لبھایا
حصے میں جس کے گنجِ بندہ نواز ؒ  آیا
اردو زبان کو جس نے جینے کا گر سکھایا
یہ ہے دکن ہمارا پیارا وطن ہمارا
        الفاظ            معنی
    بدھ مت        :    گوتم بدھ کا نظریہ عقیدت
    بندہ نوازؒ        :    حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز
    گر        :    فن۔انداز۔ہنر۔ترکیب
    قندیل        :    چراغ ۔روشنی حاصل کرنے کی ڈبی
    3    ترانہ دکن سے اپنا پسندیدہ بند لکھئے اور مشکل الفاظ کے معنی لکھئے۔
اسلاف کی امانت اخلاص کی نشانی
گنجینہ اخوت دریائے شادمانی
صدق وفا کا مسکن الفت کی راجدھانی
جس میں دلوں پہ آصفؔ کرتے ہیں حکمرانی
یہ ہے دکن ہمارا پیارا وطن ہمارا
    الفاظ            معنی
    اسلاف        :    باپ دادا۔ پرکھے ۔
    گنجینہ        :    خزانہ
    اخوت        :    محبت بھائی چارہ
    شادمانی        :    خوشیاں‘خوشی
    گنجینہ اخوت    :    محبت کا خزانہ
    صدق و وفا        :    سچائی اور پاکیزگی
    مسکن        :    ٹھکانہ۔رہنے کی جگہ

II    پانچ سطروںمیں جواب لکھئے۔

    1۔    نظم’’ ترانہ دکن ‘‘ کا مرکزی خیال کیا ہے۔

جواب:         نظم’’ ترانہ دکن‘‘ میں فرزند دکن نامور شاعر سکندر علی وجدؔ نے دکن کے علاقے کی عظمتوں کو اجاگر کیا ہے۔ یہاں کے قدرتی خزانوں‘یہاں کے عظیم انسانوں‘یہاں کی گنگا جمنی تہذیب‘خلوص و بھائی چارہ اور یہاں کے حکمرانوں کی رواداری کا ذکر کرتے ہوئے شاعر نے اس عظیم وطن دکن کو دنیا کا عظیم علاقہ قرار دیا ہے اور یہاں رہنے والے لوگوں کو سبق دیا ہے کہ دکن کے ماضی کی عظمتوں کو یاد رکھیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔

    2۔    شاعر وجدؔ نے نظم میں اپنا وطن کس کو کہا ہے۔

جواب:        شاعروجدؔ نے نظم’’ ترانہ دکن‘‘ میں ریاست حیدرآباد اور دکن کے علاقے کو اپنا وطن کہا ہے۔ وطن وہ علاقہ ہوتا ہے جہاں کی رعایا سکھ چین سے زندگی گزارے اور زندگی کے ہر میدان میں ترقی کرے۔ سابق ریاست حیدرآباد میں حکمران روادار تھے۔ لوگوں میں خلوص و بھائی چارہ پایا جاتا تھا۔ اور ریاست میں زندگی کے ہر میدان میں ترقی تھی۔جس کے سبب دکن کی ریاست ایک مثالی ریاست بن گئی تھی۔ جسے شاعر اپنا وطن کہتا ہے اور اسے اپنے وطن پر ناز ہے۔

    3۔    وجدؔ کی نظموں کا مختصرجائزہ لیجئے۔

جواب:        سکندر علی وجدؔ حیدرآباد دکن کے مشہور شاعر ہیں۔ انہوں نے غزلوںکے علاوہ کئی شاہکار نظمیں کہی ہیں۔ان کی چند اہم نظمیں رقاصہ۔نیلی ناگن۔آثار سحر۔ خانہ بدوش۔معطر لمحے۔تاج محل اور جامعہ عثمانیہ ان کی مشہور نظمیں ہیں۔ان کی نظموں میں بیان کی روانی اور سادگی پائی جاتی ہے۔وطن کی مٹی سے محبت اور یہاں کی تہذیب سے پیار ان کی نظم گوئی کی اہم خصوصیات ہیں۔ انہیں شاعر دکن کہا جائے تو مناسب ہے۔

    4۔    نظم’’ ترانہ دکن ‘‘ میں کس علاقے کی تعریف کی گئی ہے۔

جواب:    نظم’’ ترانہ دکن ‘‘ میں شاعر سکندر علی وجدؔ نے جنوبی ہند میں واقع ریاست حیدرآباد کے علاقے دکن کی تعریف کی ہے۔ ریاست حیدرآباد میں گولکنڈہ۔بیدر۔بیجاپور۔ برار اور مدراس کے علاقے شامل تھے۔ اپنے سلاطین کی فراست اور رواداری اور علاقے کی خوشحالی کے سبب تاریخ میں دکن کا علاقہ یاد رکھا جاتا ہے۔ شاعر کو اپنے وطن پر ناز ہے اور اس نظم میں وجدؔ نے دکن کی عظمت بیان کی ہے۔

III    ایک لفظ یا جملے میں جواب لکھئے۔

     1۔    نظم کا عنوان کیا ہے۔
جواب:        نظم کا عنوان’’ ترانہ دکن ‘‘ ہے۔
    2۔    نظم’’ ترانہ دکن‘‘ کس نے لکھی۔
جواب:        نظم ’’ترانہ دکن‘‘ سکندر علی وجدؔ نے لکھی۔
    3۔    سکندر علی وجدؔ کا سنہ پیدائش کیا ہے۔
جواب:        سکندر علی وجد22جنوری1914ء کو اورنگ آبادمیں پیدا ہوئے۔
    4۔    شاعر سکندر علی وجدؔ کے کسی ایک شعری مجموعے کا نام لکھیے۔
جواب:        سکندر علی وجدؔ کے ایک شعری مجموعے کا نام’’ لہو ترنگ‘‘ ہے۔
    5۔    نظم میں کس بادشاہ کا تخلص استعمال ہوا ہے۔
جواب:        نظم میں ریاست حیدرآباد اور آصف جاہی سلطت کے ساتویں بادشاہ میر عثمان علی خان آصفؔ سابع کا تخلص استعمال ہوا ہے۔

IV        پندرہ سطروںمیں جواب لکھئے۔

    1۔    نظم’’ ترانہ دکن ‘‘ کا خلاصہ لکھئے۔
جواب:        (جواب کے لیے نظم کا خلاصہ دیکھیں)۔
    2۔    شاعر وجدؔ کے حالات زندگی پر روشنی ڈالئے۔
جواب:        ( جواب کے لیے شاعر کے حالات زندگی دیکھیں)
    3۔    ’’ ترانہ دکن ‘‘ میں قومی یکجہتی کا کس طرح پیغام ملتا ہے۔
جواب:        نظم’’ ترانہ دکن ‘‘میں شاعر سکندر علی وجدؔ نے حیدرآباد دکن کی گنگا جمنی تہذیب کو پیش کرتے ہوئے یہاںپائی جانے والی قومی یکجہتی کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ ریاست حیدرآباد میں نظام دور حکومت میں مذہبی رواداری عام تھی ۔ اور مسلمانوںکے ساتھ ہندئوںکو بھی برابر کے مواقع فراہم تھے۔ یہاں مسجدوں کے ساتھ مندروں اور گردواروں کو بھی امداد دی جاتی تھی۔ بدھ مت کے ماننے والے بھی یہاں خوش تھے۔ یہاں کے دربار میں کئی کائستھ اور ہندو بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ مہاراجہ کشن پرشاد یہاں کے وزیر اعظم تھے۔ دکن کی حکومت اور رعایا سب ایک دوسرے سے مل جل کر رہتے تھے امن اور بھائی چارہ مثالی تھا یہی وجہہ ہے کہ حیدرآباد دکن آج بھی دنیا بھر میں اپنی گنگا جمنی تہذیب اور عظیم قومی یکجہتی کے لئے جانا جاتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے