Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

کلجگ نظیرؔ اکبر آبادی

 کلجگ   نظیرؔ اکبر آبادی

کلجگ   نظیرؔ اکبر آبادی

شاعر کاتعارف :سید محمد نظیرؔ اکبر آبادی (1735-1830) اُردو کے مشہور نظم گو شاعر گذرے ہیں۔ دہلی میں پیداہوئے بعد میں اکبر آباد آگرہ میں منتقل ہوگئے اور ساری زندگی وہیں گذاردی۔ نظیر ؔ کے والد کا نام محمد فاروق تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم و تربیت مولوی محمد کاظم اور ملا ولی محمد سے حاصل کی ۔ نظیرؔ سیر سپاٹے کے رسیا تھے وہ عرسوں ‘جاتراؤں اور میلوں میں شرکت کرتے اور زندگی کے مشاہدات کو نظموں میں بیان کرتے تھے وہ فطری شاعر تھے۔

     ان کی شاعری ہندوستانی تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ہندوستانی تہواروں ہولی ‘دیوالی‘راکھی‘دسہرہ‘عید ‘اور کھیل کود ‘زندگی کے تجربات اور دیگر فطری موضوعات کو بیان کیا۔ ان کا مشاہدہ گہرا تھا۔ زندگی کو انہوں نے قریب سے دیکھا اور اسے اپنی شاعری میں پیش کیا۔ انہوں نے بہت سی نظمیں عبرت اور نصیحت کی خاطر لکھیں۔ انہیں جزئیات نگاری پر عبور تھا ہر بات کو تفصیل سے مثالوں کے ذریعے اپنی نظموں میں پیش کرتے تھے۔ انہوں نے شاعری میںعوامی زبان استعمال کی۔ اسی لئے انہیں اردو کا پہلا عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کی مشہور نظمیں آدمی نامہ‘ بنجارہ نامہ‘روٹی اور کلجگ وغیرہ ہیں۔ نصابی کتاب میں شامل ان کی ایک نظم ’’کلجگ‘‘ ہے ۔نظم کے اشعار اس طرح ہیں۔

دنیا عجب بازار ہے کچھ جنس یاں کی ساتھ لے
نیکی کا بدلہ نیک ہے بد سے بدی کی بات لے
میوہ کھلا میوہ ملے‘ پھل پھول دے پھل پات لے
آرام دے آرام لے دْکھ درد دے آفات لے
کلجْگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہاتھ دے اْس ہاتھ لے

کانٹا کسی کے مت لگا گو مثل گل پھولا ہے تو
وہ تیرے حق میں تیر ہے کس بات پر پھولا ہے تو
مت آگ میں ڈال اور کو پھر گھانس کا پولا ہے تو
سن رکھ یہ نکتہ بے خبر کس بات پر بھولا ہے تو
کلجْگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہاتھ دے اْس ہاتھ لے

تو اور کی تعریف کر، تجھ کو ثنا خوانی ملے
کر مشکل آساں اور کی تجھ کو بھی آسانی ملے
تو اور کو مہمان کر تجھ کو بھی مہمانی ملے
روٹی کھلا روٹی ملے، پانی پلا پانی ملے
کلجْگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہاتھ دے اْس ہاتھ لے

اپنے نفع کے واسطے مت اور کا نقصان کر
تیرا بھی نقصان ہووے گا اس بات پر تو دھیان کر
کھانا جو کھا تو دیکھ کر‘پانی پئے تو چھان کر
یاں پائوں کو رکھ پھونک کر اور خوف سے گزران کر
کلجْگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہاتھ دے اْس ہاتھ لے


غفلت کی یہ جاگہ نہیں‘یاں صاحب ادراک رہ
دل شاد رکھ دل شاد رہ‘غمناک رکھ غمناک رہ
ہر حال میں تو بھی نظیرؔ اب ہر قدم کی خاک رہ
یہ وہ مکاں ہے او میاں یاں پاک رہ بے باک رہ
کلجْگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہاتھ دے اْس ہاتھ لے

نظم کا خلاصہ: سید محمد نظیرؔ اکبر آبادی (1735-1830) اردو کے مشہور نظم گو شاعر گذرے ہیں۔انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نصیحت آمیز باتیں پیش کی ہیں۔ ان کی ایک مشہور نظم’’ کلجگ‘‘ ہے۔ نظم کا خلاصہ اس طرح ہے۔
نظیرؔ نے نظم ’’ کلجگ‘‘مسدس کی شکل میں لکھی ہے۔ نظم کے ہر بند میں چھ مصرعے ہیں اور ہر بند کے آخری ٹیپ کے دو مصرعے ساری نظم میں دہرائے گئے ہیں۔ نظیرؔ زمانہ شناس تھے انہوں نے زندگی کو قریب سے دیکھا تھا۔ اور ایک ایسے دور میں زندگی گزاری جب مغلیہ سلطنت کو زوال ہورہا تھا اور انسانی قدریں ٹوٹ پھوٹ رہی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ نظیرؔ نے گیارہ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں لوگوں کو نصیحت کی باتیں پیش کی ہیں اور دنیائے فانی کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ نظیرؔنے اپنی شاعری میں ہندی یا ہندوستانی الفاظ کثرت سے استعمال کئے ہیں۔ 

    چنانچہ اس نظم کا عنوان’’ کلجگ‘‘ در اصل ہندی لفظ کلیگ ہے جس کے معنی سیاہ دور یا تباہی و بربادی کا دور۔ ایسا دور جس میں اچھی قدریں ختم ہوجائیں گی اور ہر طرف ظلم و زیادتی بڑھ جائے گی۔ دھاتی دور کے بعد موجودہ زمانے کو کلجگ کہا گیا ہے۔ چنانچہ نظیرؔاس سیاہ دور کا ذکر کرتے ہوئے انسان کو اچھے کاموں کی نصیحت کرتے ہیں۔ نظم’’ کلجگ‘‘ کے پہلے بند میں نظیرؔایک ناصح کی طرح نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دنیا ایک عجیب بازار ہے۔ جس طرح لوگ بازار میں طرح طرح کے کاروبار کرتے ہیں‘ خرید و فروخت کرتے ہیں اسی طرح دنیا کے اس بازار میں انسان کو اپنے لئے کچھ اچھی چیزیں حاصل کرلینی چاہئیں۔ یہ دنیا وہ جگہ ہے جہاں نیکی کا بدلہ اچھاہوگا اور بدی کا بدلہ برا ہوگا۔یہ فطرت کا قانون ہے کہ انسان جو فصل بوئے گا اسے وہی کھیتی حاصل ہوگی اگر وہ اس دنیا میں اچھے اخلاق و کردار کے ساتھ زندگی گزارے گا تو اسے لوگوں سے اور خدا کی طرف سے اچھا بدلہ ملے گا۔ برائی کا انجام جلد یا دیر برا ہی ہوگا۔

     نظیرؔ کو جزئیات نگاری پر عبور تھا وہ اس برے دور کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے آگے کہتے ہیں کہ انسان کسی کومیوہ کھلائے گا میٹھا کھلائے گا تو لوگ اس برتائو سے خوش ہوں گے اور اس کے ساتھ بھی اچھا برتائو کریں گے۔ لوگوں کے لئے اگر ہم راحت اور آرام کا سامان پہونچائیں گے توہمیں بھی خدا کی طرف سے نعمتیں ملیں گی۔ لوگ بھی ہم سے اچھی طرح پیش آئیں گے اگر ہم کسی کو تکلیف پہونچائیں گے تو ہمیں بھی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نظیرؔ اس زمانے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کہ سیاہ دور  یاکالا زمانہ نہیں بلکہ اچھے کام کرنے کا اچھا دور ہے ۔

    یہاں خدا کی طرف سے ہمیں ثواب اور نعمتوں کی شکل میں فوری اجر ملے گا ۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ یہاں اچھے کام کرنا نقد سودا ہے کہ ِادھر اچھا کام کئے اور اُدھراس کا اجر ملا۔ اس طرح نظیرؔ ایک ناصح اور مبلغ کی طرح لوگوں کو برے دور میں اچھے کاموں کی نصیحت کرتے ہیں۔نظم’’ کلجگ‘‘ کے دوسرے بند میں نظیرؔ اپنی نصیحتوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ انسان ایک پھول کی مانند ہے جب خدا نے اسے اچھی صفت پر پیدا کیا تو اسے کسی کی زندگی میں کانٹے کی طرح چبھن یا مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہئے۔لوگوں پر ظلم کرنا یا انہیں مصیبت میں ڈالنا ایک زہر کی طرح نقصان دہ عمل ہے۔ کسی کو دشمنی کی آگ میں نہیں ڈالنا چاہئے کیوں کی انسان خود ایک گھاس کے گٹھے کی طرح ہلکا پھلکا نازک ہے۔ اگر ہم کسی کی زندگی میں آگ کی طرح مشکلات لائیں گے تو ہم بھی اس آگ کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    اس لئے نظیرؔ لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے زندگی کے اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سیاہ دور یا کالا زمانہ نہیں بلکہ اچھے کام کرنے کا اچھا دور ہے ۔یہاں خدا کی طرف سے ہمیں ثواب اور نعمتوں کی شکل میں فوری اجر ملے گا ۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ یہ اچھے کام کرنا نقد سودا ہے کہ ِادھر اچھا کام کئے اور اُدھراس کا اجر مل جاتا ہے۔نظم’’کلجگ ‘‘ کے تیسرے بند میں نظیر ؔ انسانوں کے لئے اچھی باتوں اور نصیحتوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ہم کسی کی تعریف کریں گے تو بدلے میں لوگ ہماری تعریف بھی کریں گے۔ انسانوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کی برائی کرتے رہتے ہیں 

    جب کہ ہماری تہذیب و تربیت کا تقاضہ ہے کہ ہم لوگوں کے سامنے اور پیچھے ان کی اچھائیاں ہی بیان کریں اس رویے سے لوگ ہمیں بھی پسند کریں گے اور ہماری تعریف بھی دوسروں کے سامنے کریں گے اور ایک اچھا معاشرہ تشکیل پائے گا۔ چنانچہ نظیرؔ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی مشکلات کو آسان کرنے والے بنیں۔ اچھا دوست وہی ہوتا ہے جو مشکل میں کسی کے کام آئے اللہ نے ہمیں اگر صحت ‘دولت‘عزت اور حکومت کی شکل میں کچھ نعمتیں دی ہیں تو ان نعمتوں کو لوگوں کی مدد کے لئے استعمال کرنا چاہئے اس سے خدا ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرے گا۔ انسانی تہذیب کا تقاضہ ہے کہ ہم مہمان کا اکرام کریں بھوکوں کو کھانا کھلائیں ۔ضرورت مندوں کی مدد کریں تو مشکل اوقات میں لوگ ہماری مدد کریں گے۔

     ہماری زندگی میں اکثر ایسے حالات آتے ہیں کہ دولت اور زندگی کی تمام سہولتیں ہونے کے باوجود ہمیں کسی کی ضرورت پیش آجاتی ہے اس وقت سماج میں اگر ہماری اچھی شناخت ہوگی تو مشکل اوقات میں لوگ ہماری مدد کو آئیں گے۔اگر کوئی ضرورت مند روٹی طلب کرے یا آپ سے کچھ مانگے تو اپنی سکت سے بڑھ کر ہمیں کسی کی مدد کرنا چاہئے ۔ سخت گرمی میں پانی پلانا بڑے ثواب کا کام ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ پانی پلانے کے کام میں بڑھ چڑھ کر آگے آرہے ہیں۔ چنانچہ اس فانی دنیا میں اچھے کام کرتے ہوئے اپنی آخرت میں نیکیوں کے ذخیرے کو بڑھاتے رہنا چاہئے اسی لئے نظیرؔ اس زمانے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سیاہ دور یا کالا زمانہ نہیں بلکہ اچھے کام کرنے کا اچھا دور ہے ۔یہاں خدا کی طرف سے ہمیں ثواب اور نعمتوں کی شکل میں فوری اجر ملے گا ۔

     اس لئے وہ کہتے ہیں کہ یہاں اچھے کام کرنا نقد سودا ہے کہ ِادھر اچھا کام کئے اور اُدھراس کا اجر مل جاتا ہے۔ نظم ’’ کلجگ‘‘ کے چوتھے بند میں نظیرؔ لوگوں کو مزید برے کاموں سے رکنے کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے نفع کے لئے کسی کا نقصان نہیں کرنا چاہئے جب کہ اس برے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ ملاوٹ ‘جھوٹ اور دھوکہ دہی کہ ذریعے عارضی نفع کمانے کے لالچ میں لوگوں کا نقصان کرتے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں ملاوٹ اور جھوٹ شامل ہوگیا ہے جس سے انسانیت کو نقصان پہونچ رہا ہے۔اور نظیرؔ نے جس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر ہم کسی اور کے نقصان کے لئے گڑھا کھودتے ہیں تو کبھی نہ کبھی اسی گڑھے میں خود گرتے ہیں۔ اشیاء میں ملاوٹ کرنے والے خود بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ نظیرؔ روز مرہ زندگی کے آداب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کھانا دیکھ کر کھانا چاہئے کہ اس میں کہیں کوئی نقصان دہ چیز تو نہیں اسی طرح پانی کو دیکھ کر اور چھان کر پینا چاہئے۔ 

    یہ دنیا جگہ جگہ خطرات سے بھری ہے اس لئے ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئے اور سنبھل کرزندگی گزارنی چاہئے۔ ہمیں حالات سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ مشکلات کا بہادری سے سامنا کرنا چاہئے اسی لئے نظیر اس زمانے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سیاہ دور یا کالا زمانہ نہیں بلکہ اچھے کام کرنے کا اچھا دور ہے ۔یہاں خدا کی طرف سے ہمیں ثواب اور نعمتوں کی شکل میں فوری اجر ملے گا ۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ یہاں اچھے کام کرنا نقد سودا ہے کہ ِادھر اچھا کام کئے اور اُدھراس کا اجر مل جاتا ہے۔ نظم ’’ کلجگ‘‘ کے آخری بند میں نظیرؔ انسانوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دنیا غفلت کی جگہ نہیں ہے۔ غافلوں کی دنیا تو کیا خدا بھی مدد نہیں کرتا اس لئے انسانوں کو چاہئے کہ وہ دنیا کی زندگی کا علم رکھیں اچھے برے کی تمیز رکھیں اور برائی کو ترک کرتے ہوئے اچھی باتوں پر عمل کرتے رہیں۔

     اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ہر شام کے بعد صبح ہوتی ہے ہر نشیب کے بعد فراز اور ہر مشکل کے بعد آسانی آتی ہے اس لئے اللہ کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہئے اللہ نے جو دیا اس پر خوش رہنا چاہئے رب کا شکر گزار رہنا چاہئے۔ غم سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے خوشی میں شکر اور غم میں صبر کرتے رہنا چاہئے۔ نظیرؔ اپنے آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے دنیا کے لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں اپنے قدموں کی خاک کی طرح ہلکا پھلکا رہنا چاہئے یہ دنیا مسافر خانہ ہے اور یہاں عمل اور نیکی کا توشہ تیار کرتے ہوئے ہمیں ہمیشہ آخرت کے سفر پر جانے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ دنیا وہ جگہ ہے جہاں ہمیں جسمانی اور روحانی طور پر پاک و صاف اور بے باک رہنا چاہئے۔ یہ دنیا بھلے ہی برائی اور مظالم کی جگہ ہوگی لیکن ہمیں اپنے اچھے کاموں کے ذریعے مثالی انسان بن کر رہنا چاہئے تب ہی ہم کامیاب انسان کہلائے جاسکتے ہیں اور ہمارا رب ہمیں اپنے اچھے کاموں کا نقد اجر فوری عطا کرے گا۔

    مرکزی خیال: نظیرؔ اکبر آبادی نے نظم’’ کلجگ‘‘ میں انسانوں کو نیک و صالح زندگی گزارنے اور اچھے کاموں کی تلقین کی ہے۔ اور کہا کہ اس دنیا میں نیکی کا بدلہ فوری ملے گا اور اچھا ملے گا اس لئے وہ برے زمانے میںلوگوں کو اچھائی کی تلقین کرتے ہیں۔ نظیرؔ کی نصیحتیں انسانوں کے لئے ہیں تاکہ ایک فرد کی تعمیر سے ایک معاشرے کی تعمیر ہو۔اور سیاہ و تاریک دور سے انسانیت کی شمع روشن ہو۔ نظیرؔ نے جو نصیحتیں انسانوں کے لئے کی ہیں در اصل وہ پیغمبر انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں جن سے نہ صرف ہمارا معاشرہ بلکہ ساری انسانیت کی تعمیر ممکن ہے۔ نظیرؔ کا یہ پیغام ہمارے آج کے نوجوانوں کی کردار سازی کے لئے اہم ہے جو مستقبل کے شہری ہیں اگر ان اخلاق و کردار سنور جائیں تو ہمارا مستقبل تابناک ہوگا۔

سوالات:

I    بند مکمل کیجئے اور مشکل الفاظ کے معنی لکھئے۔

    1    
دنیا عجب بازار ہے کچھ جنس یاں کی ساتھ لے
نیکی کا بدلہ نیک ہے بد سے بدی کی بات لے
میوہ کھلا میوہ ملے‘ پھل پھول دے پھل پات لے
آرام دے آرام لے دْکھ درد دے آفات لے
کلجْگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہاتھ دے اْس ہاتھ لے
    الفاظ         معنی
    جنس        چیز ۔سامان
    بد        برا
    میوہ        پھل
    آفات        مصیبتیں۔پریشانیاں
    کلجگ        برا دور
    کرجگ        کام کا زمانہ۔اچھا زمانہ
    سودا        کاروبار۔خرید و فروخت


    2    
تو اور کی تعریف کر، تجھ کو ثنا خوانی ملے
کر مشکل آساں اور کی تجھ کو بھی آسانی ملے
تو اور کو مہمان کر تجھ کو بھی مہمانی ملے
روٹی کھلا روٹی ملے، پانی پلا پانی ملے
کلجْگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہاتھ دے اْس ہاتھ لے
    الفاظ         معنی
    ثناخوانی        تعریف کرنا
    مہمانی        کسی کا اکرام کرنا
    نقد        فوری


    3    نظم کلجگ سے اپنی پسند کا بند لکھئے اور مشکل الفاظ کے معنی لکھئے۔
جواب:    اپنے نفع کے واسطے مت اور کا نقصان کر
تیرا بھی نقصان ہووے گا اس بات پر تو دھیان کر
کھانا جو کھا تو دیکھ کر‘پانی پئے تو چھان کر
یاں پائوں کو رکھ پھونک کر اور خوف سے گزران کر
کلجْگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہاتھ دے اْس ہاتھ لے
    الفاظ         معنی
    نفع        فائدہ
    واسطے        کے لئے
    دھیان        توجہ
    خوف        ڈر
    گزران        بچ کر رہنا

  II    پانچ سطروں میں جواب لکھئے۔

    1۔    نظیر ؔ اکبر آبادی کا تعارف کروائیے۔

جواب:    :سید محمد نظیرؔ اکبر آبادی (1735-1830) اُردو کے مشہور نظم گو شاعر گذرے ہیں۔ دہلی میں پیداہوئے بعد میں اکبر آباد آگرہ میں منتقل ہوگئے اور ساری زندگی وہیں گذاردی۔ نظیر ؔ کے والد کا نام محمد فاروق تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم و تربیت مولوی محمد کاظم اور ملا ولی محمد سے حاصل کی ۔ نظیرؔ سیر سپاٹے کے رسیا تھے وہ عرسوں ‘جاتراؤں اور میلوں میں شرکت کرتے اور زندگی کے مشاہدات کو نظموں میں بیان کرتے تھے وہ فطری شاعر تھے۔ ان کی شاعری ہندوستانی تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ہندوستانی تہواروں ہولی ‘دیوالی‘راکھی‘دسہرہ‘عید ‘اور کھیل کود ‘زندگی کے تجربات اور دیگر فطری موضوعات کو بیان کیا۔ ان کا مشاہدہ گہرا تھا۔ زندگی کو انہوں نے قریب سے دیکھا اور اسے اپنی شاعری میں پیش کیا۔ انہوں نے بہت سی نظمیں عبرت اور نصیحت کی خاطر لکھیں۔ انہیں جزئیات نگاری پر عبور تھا ہر بات کو تفصیل سے مثالوں کے ذریعے اپنی نظموں میں پیش کرتے تھے۔ انہوں نے شاعری میںعوامی زبان استعمال کی۔ اسی لئے انہیں اردو کا پہلا عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کی مشہور نظمیں آدمی نامہ‘ بنجارہ نامہ‘روٹی اور کلجگ وغیرہ ہیں۔

    2۔    نظم ’’ کلجگ‘‘ کا بنیادی نقطہ نظر کیا ہے۔

جواب:     نظیرؔ اکبر آبادی نے نظم’’ کلجگ‘‘ میں انسانوں کو نیک و صالح زندگی گزارنے اور اچھے کاموں کی تلقین کی ہے۔ اور کہا کہ اس دنیا میں نیکی کا بدلہ فوری ملے گا اور اچھا ملے گا اس لئے وہ برے زمانے میںلوگوں کو اچھائی کی تلقین کرتے ہیں۔ نظیرؔ کی نصیحتیں انسانوں کے لئے ہیں تاکہ ایک فرد کی تعمیر سے ایک معاشرے کی تعمیر ہو۔اور سیاہ و تاریک دور سے انسانیت کی شمع روشن ہو۔ نظیرؔ نے جو نصیحتیں انسانوں کے لئے کی ہیں در اصل وہ پیغمبر انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں جن سے نہ صرف ہمارا معاشرہ بلکہ ساری انسانیت کی تعمیر ممکن ہے۔ نظیرؔ کا یہ پیغام ہمارے آج کے نوجوانوں کی کردار سازی کے لئے اہم ہے جو مستقبل کے شہری ہیں اگر ان اخلاق و کردار سنور جائیں تو ہمارا مستقبل تابناک ہوگا۔

    3    شاعر کلجگ کو کرجگ کیوں کہتا ہے۔

جواب:    نظیرؔ اکبر آبادی نے اپنی نظم میں کلجگ کو کرجگ کہا ہے۔ یعنی زمانہ تو برا ہے لیکن برے زمانے میں انسان کو انہوں نے اچھے کاموں کی تلقین کی ہے اور مختلف مثالوں سے واضح کیا ہے کہ اس دنیا میں اچھے برے سب لوگ ہوتے ہیں لیکن ہمیشہ اچھائی کی قدر ہوتی ہے جو اچھا کام کرے گا اسے اچھا اجر ملے گا اور یہ نقد سودا ہے یعنی نیکی کا بدلہ فوری اور اچھا ملے گا۔ نظیرؔ نے زندگی کی مختلف باتوں میں اچھائی کو لانے کی تلقین کی ہے۔ نظیرؔ کا پیغام انسانیت کے لئے ہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے انسان اپنے لئے اور دوسروں کے لئے راحت و سکون کا سامان کرسکتے ہیں۔ اور کلجگ کو کرجگ میں بدل سکتے ہیں۔

  III    ایک لفظ یا جملہ میں جواب لکھئے۔

    1۔کلجگ سے کیا مراد ہے۔
جواب:    کلجگ سے برا زمانہ مراد ہے۔
    2۔دنیا کیسا بازار ہے۔
جواب:    دنیا عجب بازار ہے۔ یہاں اچھے کا بدلہ اچھا اور برے کا بدلہ برا ملے گا۔
    3۔نقد سودا کسے کہتے ہیں۔
جواب:    نقد سودے سے مراد جو کام کئے اس کا فوری اجر مل جانا ہے۔ یعنی نیکی کا بدلہ فوری اچھا ملے گا۔
    4۔نظیرؔ اکبر آبادی کا انتقال کس سنہ میں ہوا۔
جواب:    نظیرؔ اکبر آبادی کا انتقال 1830ء میں ہوا۔
    5۔نظم کے معنی کیا ہیں۔
جواب:      نظم کے لغوی معنی پرونا ، ترتیب دینا،تشکیل دینا اور انتظام کرنا کے ہیں۔ شاعری کی اصطلاح میں اشعار کا ایسا مجموعہ جس میں کسی ایک خیال کو تسلسل سے بیان کیا جائے اسے نظم کہتے ہیں۔

   IV    پندرہ سطروں میں جواب لکھئے۔

    1    نظم کلجگ کا خلاصہ لکھئے۔

جواب:    (خلاصہ دیکھ کر لکھیں)

    2    نظیر اکبر آبادی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں۔

جواب: سید ولی محمد نظیرؔ اکبرآبادی کی پیدائش1735ء میں دہلی میں  ہوئی اور16/اگست 1830ء میں95 سال کی عمر میں آگرہ میں  وفات پائی۔ والد کا نام محمد فاروق تھا۔ نظیرؔ کا دور بہت پرآشوب دور تھا۔ نادر شاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے دہلی کو تاراج کردیا تھا ان حالات میں ان کی والدہ دہلی چھوڑ کر آگرہ آگئیں۔ نظیر کی ابتدائی تعلیم عربی و فارسی میں ہوئی۔ بچپن اور جوانی بہت فارغ البالی اور خوشحالی میں گزرا۔ ہر قسم کی تفریحات میں انہوں نے دل کھول کر حصہ لیا جس کے سبب ان کے کلام میں  بچپن کے کھیل تماشوں ، تہواروں  کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔ پتنگ بازی، کبوتر بازی، بٹیر بازی، کبڈی، شطرنج وغیرہ سے انھیں  خوب لگائو تھا اور اس کا ذکر ان کی شاعری میں  جابجا ملتا ہے۔
    نظیر اکبرؔبادی بہت پْرگو اور قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کے کلام کی انفرادیت کے پیشِ نظر انھیں کسی بھی شعری دبستان سے وابستہ نہیں کیا جاسکتا۔ دہلی اور لکھنو جیسے ادبی اور ثقافتی مراکز سے دور اکبرآباد میں  وہ اپنے رنگ کے موجد ہیں۔ وہ اپنی ذات میں  ایک تحریک اور کلیات کے اعتبار سے ایک دبستان تھے۔
    نظیر ہر اعتبار سے ہندوستانی شاعر ہیں۔ وہ ہندوستان کے باشندے ہیں  اور انھیں  اپنے ہندی ہونے پر فخر ہے۔ نظیرؔ کی مادری زبان اردو ہے اور اسی زبان کو انھوں  نے اپنے اظہار کا وسیلہ قرار دیا۔ جذبات و احساسات کے لحاظ سے بھی نظیر قطعی ہندوستانی شاعر ہیں۔ انھیں  ہندوستان کی ہرچیز سے لگائو اور محبت ہے یہی سبب ہے کہ انھوں نے ہندوستان کے دریا، پہاڑ، مناظرِ فطرت، ہندوستان کی برسات، میلے ٹھیلے، دیوالی، بسنت، تل کا لڈو، ککڑی، تربوز، بھنگ، ریچھ کا بچہ وغیرہ جیسے موضوعات  پر طبع آزمائی کی ، جو اس عہد کے شاعرانہ مزاج کے لیے باغیانہ اور سوقیانہ تھے لیکن نظیر کو اپنے وطن کی سرزمین سے اس قدر عقیدت تھی کہ انھوں نے یہاں کی تمام چیزوں کو موضوعِ سخن بنانے میں  قباحت محسوس نہیں کی۔
    نظیر جدید اردو نظم کے موجد مانے جاتے ہیں ۔ وہ جدیدنظم جس کو آگے چل کر حالیؔ اور آزادؔ نے فروغ دیا، نظیر اس کی بنیاد بہت پہلے رکھ چکے تھے۔ حالاں کہ نظیر کے دور میں شاعری زلف محبوب و رخسار اور گل و بلبل کے نغموں میں اسیر تھی اور فارسیت نے ارد وکو اپنے شکنجے میں پوری طرح جکڑ رکھا تھا۔ موضوع اور زبان دونوں میں فارسی کا اثر غالب تھا۔ لیکن نظیر وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے عام ڈگر سے ہٹ کر شاعری کو عوامی رنگ اور نچلے طبقے کے لوگوں  کے مسائل کے لیے استعمال کیا  اور انھیں کی زبان میں کلام کیا۔
    نظیر کی تشبیہات و استعارات خالص ہندوستانی ہیں۔ مناظرِ فطرت اور چیزوں کی مثالیں ہندوستانی زندگی پر مبنی ہیں۔ عرب و ایران سے مستعار نہیں لی گئی ہیں ۔ چوں کہ نظیر خالص عوامی شاعر ہیں اس لیے انھوں  نے اس زمانے کی معاشرت کے ہر پہلو کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ نظیر کے تمام تر موضوعات، انسان، اس کی زندگی،اس کے مسائل اور معاشرت کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ بنی نوع انسان کی ان کے نزدیک خاص اہمیت ہے اور ان کی انتہائی دلچسپی کا باعث بھی اس لیے وہ اسے ہر رنگ او رہر پہلو سے دیکھنا چاہتے ہیں  اور ہر حال میں ہر مقام پر اس کے ساتھ رہتے ہیں۔
     نظیر اکبراؔبادی کا کمال یہ ہے کہ وہ دنیا کے مختلف مشاغل اور کھیل تماشوں کا احوال اس مزے سے بیان کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچوں کی طرح خود بھی ان افعال میں شریک ہیں ۔  ان کا مطالعہ وسیع اور معلومات غیرمحدود ہے۔ اس وصف کے پیشِ نظر ان کا خزانہ لغات بھی نہایت وسیع ہے۔  ان کی زبان و بیان دلکش اور سادہ ہے۔ نظیر میں  مذہبی تعصب نام کو نہ تھا۔انھوں  نے ہندو مذہب ، اس کے تہواروں  اور رسوم پر بھی بہت سی نظمیں لکھیں  ہیں ۔  یہی سبب ہے کہ ان کے کلام میں مقامی رنگ پیدا ہوگیا ہے جسے گنگا جمنی تہذیب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہمارے اردو شعراء کے یہاں  یہ مقامی رنگ کمیاب ہیں  بلکہ نایاب ہیں  یہی وجہ ہے کہ نظیر کی زبان، موضوع اور خیالات منفرد اور اچھوتے ہیں  جو مقامی رنگ میں  ڈوبے ہوئے ہیں۔
     نظیرؔ کے یہاں انسان دوستی، فطرت پرستی اور بے ریا زندگی کے شعور پایا جاتا ہے۔ ان کی شاعرانہ عظمت کے سبب انہیں اردو کا پہلا پہلا جدید نظم گو شاعراور ’عوامی شاعرقرار دیا گیا۔ انھوں  نے ہندوستانی تہذیب و تمدن کی تصویریںنہایت مکمل اور عمدگی سے  پیش کی ہیں ۔ چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ ان کی شاعری کا محور زندگی اور زندگی کے حادثات و تفریحات ہیں  تو بے جا نہ ہوگا۔

    3    شاعر نے اس نظم میں کن خیالات کا اظہار کیا ہے۔

جواب:    (نظم کلجگ کا خلاصہ لکھئے)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے