غزل ابن انشاء
شاعر کا تعارف: شبیر محمد خان ابن انشاء (1927-1978) اردو غزل کے مشہور شاعر گزرے ہیں۔ 15جون1927ء کو جالندھر کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔1946ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور 1953ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کامیاب کیا۔روزنامہ جنگ کراچی‘روزنامہ امروز لاہور اور ہفت روزہ اخبار جہاں میں کالم لکھتے رہے۔ابن انشاء شاعر بھی تھے اور ادیب بھی۔انہوں نے غزلیں۔نظمیں اور گیت لکھے۔شاعری میں ان کا ایک مخصوص انداز ہے۔وہ کبھی کبیر داس کی طرح انسان دوستی کا پرچار کرتے ہیںاور ایک انسان کو دوسرے انسان سے محبت کا سبق دیتے ہیں تو کبھی وہ میرؔ اور نظیرؔ اکبر آبادی کا انداز اختیار کرتے ہیں۔ابن انشاء ایک کامیاب طنز نگار بھی رہے۔ سرطان جیسے موذی مرض میں مبتلاہوئے اور علاج کے لیے لندن گئے۔11جنوری1978ء کو وہیں وفات پائی۔’’چاند نگر‘‘ اور ’’ اس بستی کے ایک کوچے میں‘‘ میں ان کے شعری مجموعے ہیں۔نثری تصانیف میں اردو کی آخری کتاب‘ خمار گندم ‘چلتے ہو تو چین کو چلیے اور دنیا گول ہے مشہور ہیں۔
شعر1۔ کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
حوالہ: یہ شعر ابن انشاء کی غزل سے لیا گیا ہے۔ یہ غزل کا مطلع ہے۔
تشریح: غزل کے مطلع میں شاعر اپنے محبوب کے حسن کی تعریف کرتا ہے۔ چودھویں رات کو جب چاندمکمل روشن ہوتا ہے۔ اور ادھر محبوب بھی بام پر کھڑا اپنے حسن کے جلوے پیش کرتا رہتا ہے تو شاعرکو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ چاند ہے یا محبوب کا خوبصورت چہرا۔ شاعر نے اپنے محبوب کے روشن اور چمکدار چہرے اور اس کے حسن کو چودھویں رات کے خوبصورت چاند سے تشبیہ دی ہے کہ اس کا محبوب اس قدر حسین ہے کہ لوگوں کو چودھویں رات کے چاند اور محبوب کے چہرے میں فرق کرنا مشکل ہورہا تھا۔ اور شاعر کے محبوب کا چرچا شب بھر جاری رہا۔انسان اگر کسی کو چاہتا ہے تو اس کی تعریف کے مختلف طریقے اختیار کرتا ہے۔ شاعر نے اپنے محبوب کے حسن کو خوبصورت چاند سے تشبیہ دی ہے۔
مرکزی خیال: شاعر کا محبوب اس قدر حسین ہے کہ چودھویں رات کے موقع پر لوگوں کو یہ اندازہ کرنا مشکل ہوگیا کہ وہ چاند دیکھ رہے ہیں یا محبوب کا چہرہ۔
شعر2: ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے
ہم ہنس دئیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ ترا
حوالہ: یہ شعر ابن انشاء کی غزل سے لیا گیا ہے۔
تشریح: غزل کے اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کی تعریف اس طرح کرتا ہے کہ لوگ جب محفل میں اس کے محبوب کے بارے میں سوالات کرتے ہیں تو شاعر ہنس کر اور چپ رہ کر اس بات کو ٹال جاتا ہے اور محبوب کی تفصیلات سے کسی کو واقف کرانا نہیں چاہتا کیوں کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا محبوب چھپار ہے اور لوگوں کے سامنے نہ آئے۔ عشق کے معاملے میں یہ ادب ہے کہ اپنے محبوب کے بارے میں کسی کو نہ بتایا جائے۔ورنہ عشق بدنام ہوجاتا ہے۔ انسان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے محبوب حقیقی خدا کی یاد میں رہے اور اپنے عشق کا تذکرہ لوگوں سے نہ کرے ورنا اس کا محبوب عام ہوجائے گی اور اس کی اہمیت جاتی رہے گی۔
مرکزی خیال: شاعر محفل میں موجود اپنے محبوب کا ذکر کسی سے نہیں کرتاکیوں کہ اسے محبوب کا پردہ منظور تھا اور وہ لوگوں کے پوچھنے پر بھی چپ رہ کر محبوب کی عزت بڑھاتا ہے۔
شعر3: اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹی محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانہ ترا
حوالہ: یہ شعر ابن انشاء کی غزل سے لیا گیا ہے۔
تشریح: غزل کے اس شعر میں شاعر ابن انشاء کہتے ہیں کہ وہ اب محفلوں میں نہیں جارہے ہیں۔ اور کسی سے بھی ملنا جلنا بند کردئے ہیں۔ کیوں کہ وہ جہاں کہیں جاتے ہیں شاعر کے محبوب کا نام ان کے سامنے آجاتا ہے اور لوگ اس کے ہی دیوانے لگتے ہیں۔ اپنے محبوب کی اس قدر شہرت دیکھ کر شاعر کا دل محفلوں میں شرکت سے اچاٹ ہوگیا ہے۔یہ بھی محبوب کے حسن کی تعریف کا ایک طریقہ ہے کہ اس کی شہرت کے بیان سے اس کی تعریف کی جائے۔ عشق میں انسان شراکت نہیں چاہتا ہے لیکن جب شاعر نے ایک ایسے محبوب سے عشق کرہی لیا ہے جس کے دیوانے اور لوگ بھی ہیں تو یہ کیفیت ہوجاتی ہے کہ انسان کسی سے ملنا نہیں چاہتا۔
مرکزی خیال: شاعر کا محبوب سب کا محبوب ہے۔ اپنے محبوب کا عام چرچا جان کر شاعر لوگوں سے ملنا ہی چھوڑ دیتا ہے اور تنہائی اختیار کرلیتا ہے۔
شعر4: کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے پربت ترے بستی تری صحرا ترا
حوالہ: یہ شعر ابن انشاء کی غزل سے لیا گیا ہے۔
تشریح: شاعر اپنے عارضی محبوب کی گلی چھوڑ کر اپنے محبوب حقیقی خدا کی تعریف کرنے لگتا ہے کہ وہ جوگی بن کر جنگل جنگل پھرنا چاہتا ہے کیوں کہ جنگل ‘پہاڑ‘بستی اور ریگستان سب خدا کے بنائے ہوئے ہیں۔ جہاں بھی جائو خدا کی نشانیاں دکھائی دیں گی اور ان نشانیوں کو دیکھ کر شاعر اپنے محبوب حقیقی خدا کو یاد کرنا چاہتا ہے۔ جب کہ دنیاوی محبوب پوشیدہ ہے۔ اس کا دیدار بھی مشکل ہے اور جنگل‘پہاڑ‘بستی اور ریگستان کی طرح عارضی محبوب کی ایسی کوئی نشانی سامنے نہیں کہ جسے دیکھ کر سکون حاصل کیا جاسکے۔ اس لیے شاعر جوگی بن کر دنیا کی نشانیوں کو دیکھنے اور خدا کو یاد کرنا چاہتا ہے۔
مرکزی خیال: شاعر عارضی محبوب کی گلی چھوڑ کر جوگی بن جانے اور دنیا بھر میں پھرتے ہوئے خدا کی نشانیوں کو دیکھنا چاہتا ہے تاکہ اسے سکون مل سکے۔
شعر5: ہم پر یہ سختی کی نظر ہم ہیں فقیر رہ گزر
رستہ کبھی روکا ترادامن کبھی تھاما ترا
حوالہ: یہ شعر ابن انشاء کی غزل سے لیا گیا ہے۔
تشریح: شاعر ابن انشاء غزل کے اس شعر میں اپنے محبوب سے کہتے ہیں کہ میں دنیا کا عارضی مسافر ہوں کچھ دن یہاں فقیر کی طرح زندگی بسر کرنے آیا ہوں مجھ پر سختی کیوں کرتے ہو ۔ جب کہ میں نے کبھی تیرا راستہ نہیں روکا اور نہ کبھی تیرا دامن تھاما۔ دور سے ہی ہم تیرے عاشق ہیں۔ انسان خدا کے عشق میں ڈوبا ہوتا ہے جب اسے مشکلات اور پریشانیاں آتی ہیں تو وہ خدا سے دعا کرتا ہے کہ وہ اس کا عاجز بندہ ہے دنیا کا مسافر ہے۔ اس فقیرپر سختی نہ کر ۔ جب کہ اس نے کبھی کسی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالی تھی۔ شاعر اپنی بے مائیگی کا ذکر اس شعر میں کرتا ہے۔
مرکزی خیال: شاعر کو احساس ہے کہ وہ دنیا کا عارضی مسافر ہے اور وہ دور سے ہی محبوب کے نظارے کررہا ہے اسے سختی پسند نہیں ہے اس لیے وہ عاجزی و انکساری کا اظہار کررہا ہے۔
شعر6: ہاں ہاں تری صورت حسیں لیکن تو ایسا بھی نہیں
اک شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا ترا
حوالہ: یہ شعر ابن انشاء کی غزل سے لیا گیا ہے۔
تشریح: شاعر ابن انشاء غزل کے اس شعر میں اپنے کلام کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے محبوب تو اس قدر بھی حسین نہیں ہے کہ لوگ ہر طرف تیری تعریف کرنے لگیں۔ لیکن میرے اشعار نے تیرے حسن کے چرچے چاروں طرف کردئے۔ شاعر اپنے محبوب کو احساس دلانا چاہتا ہے کہ وہ کہیں اپنے حسن پر غرور کرنے نہ لگے اس لئے وہ آئینہ دکھاتے ہوئے کہتا ہے کہ میں ہی ہوں جو تجھے چاہتا ہوں اور تیرے بارے میں کہے گئے میرے اشعار نے تجھے دنیا بھر میں شہرت دی ہے۔ دنیا میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ کوئی چیز کسی کے کہنے سے مشہور ہوجاتی ہے جب کہ حقیقیت میں وہ اس قدر خوبصورت اور قابل قدر نہیں ہوتی۔ شاعر اپنے محبوب کے روبرو اپنی شاعری کی قدر کرواتا ہے۔ اور دنیا والوں سے بھی کہتا ہے کہ اس کے کلام سے اس کے محبوب کی شہرت ہوئی ہے۔
مرکزی خیال: شاعر اپنے محبوب کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ اس کی شاعری کے سبب مشہورہوا ہے ۔ حقیقت میں وہ اس قدر مشہور نہیں ہے۔
شعر7: بے درد سننی ہو تو چل کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق ترا رسوا ترا شاعر تراانشا ؔترا
حوالہ: یہ شعر ابن انشاء کی غزل سے لیا گیا ہے۔ یہ غزل کا مقطع ہے۔
تشریح: شاعر اپنے محبوب کو اپنا کلام سنانا چاہتا ہے۔ شاعر کا محبوب شاعر کے خیالات کی تعریف کرتا ہے کہ کیا اچھی غزل کہی ہے لیکن شاعر چاہتا ہے کہ وہ اپنے محبوب کے پیار میں جو درد بھرے اشعار لکھے ہیں وہ خود چل کر سنے ۔ کیوں کہ شاعر اس کے فراق میں عاشق ہوا ہے رسوا ہے اور شاعری کرتا ہوا انشاء پرداز بھی بن گیا ہے۔ اس شعر میں محبوب سے شکایت کے بہانے شاعر اپنے کلام کی مقبولیت اور اس میں چھپے دکھ درد کو بیان کررہا ہے۔
مرکزی خیال: شاعر کے محبوب نے اس کی غزل گوئی کی تعریف کی ہے لیکن شاعر اسے مکمل کلام سناتے ہوئے اپنے دکھ درد کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔
سوالات:
I متن کے حوالے سے درج ذیل اشعار کی تشریح کیجیے۔
1۔ کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
جواب: شعر1کی تشریح دیکھیں۔
2۔ اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹی محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانہ ترا
جواب: شعر3کی تشریح دیکھیں۔
3 بے درد سننی ہو تو چل کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق ترا رسوا ترا شاعر تراانشا ؔترا
جواب: شعر7کی تشریح دیکھیں۔
II ایک لفظ یا جملہ میں جواب لکھیے۔
1۔ انشاؔ کا اصل نام کیا تھا۔
جواب: انشاؔ کا اصل نام شبیر محمد خاں تھا۔
2۔ انشاؔ کب اور کہاں پیدا ہوئے۔
جواب: انشاؔ 15جون1927ء کو جالندھر کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔
3۔ انشاؔ کے شعری مجموعوںکے نام لکھیے۔
جواب: انشاؔ کے شعری مجموعوں کے نام’’ چاند نگر‘‘ اور ’’ اس بستی کے ایک کوچہ میں‘‘ ہیں۔
4۔ انشاؔ کے کسی ایک سفر نامہ کا نام لکھیے۔
جواب: انشاؔ کا ایک سفر نامہ ’’ چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘ ہے۔
5۔ مطلع کسے کہتے ہیں مثال دیجیے۔
جواب: غزل کے پہلے شعر کو جس کے ذریعے شاعر اپنی بات شروع کرتا ہے اسے مطلع کہتے ہیں۔ لفظ مطلع طلوع سے بنا ہے جس کے معنی آغاز یا شروع ہونے کے ہیں۔ مطلع کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہم ردیف ہوتے ہیں۔ ابن انشاؔ کی غزل کا مطلع اس طرح ہے۔
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
III حسب ذیل سوالات کے پندرہ سطروں میں جوابات لکھیے۔
1۔ انشاؔ کے حالات زندگی پر نوٹ لکھیے۔
جواب: شبیر محمد خان ابن انشاء (1927-1978) اردو غزل کے مشہور شاعر گزرے ہیں۔ 15جون1927ء کو جالندھر کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔1946ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور 1953ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کامیاب کیا۔روزنامہ جنگ کراچی‘روزنامہ امروز لاہور اور ہفت روزہ اخبار جہاں میں کالم لکھتے رہے۔ابن انشاء شاعر بھی تھے اور ادیب بھی۔انہوں نے غزلیں۔نظمیں اور گیت لکھے۔شاعری میں ان کا ایک مخصوص انداز ہے۔وہ کبھی کبیر داس کی طرح انسان دوستی کا پرچار کرتے ہیںاور ایک انسان کو دوسرے انسان سے محبت کا سبق دیتے ہیں تو کبھی وہ میرؔ اور نظیرؔ اکبر آبادی کا انداز اختیار کرتے ہیں۔ابن انشاء ایک کامیاب طنز نگار بھی رہے۔ سرطان جیسے موذی مرض میں مبتلاہوئے اور علاج کے لیے لندن گئے۔11جنوری1978ء کو وہیں وفات پائی۔’’چاند نگر‘‘ اور ’’ اس بستی کے ایک کوچے میں‘‘ میں ان کے شعری مجموعے ہیں۔نثری تصانیف میں اردو کی آخری کتاب‘ خمار گندم ‘چلتے ہو تو چین کو چلیے اور دنیا گول ہے مشہور ہیں۔
2۔ انشاؔ کی شاعری اور نثر نگاری کی خصوصیات بیان کیجیے۔د
جواب: شبیر محمد خان ابن انشاء (1927-1978) اردو غزل کے مشہور شاعر گزرے ہیں۔ بیسویں صدی میں اردو شاعری میں ایک منفرد تازگی کمال جاذبیت، دلکشی اور حسن و رعنائی پیش کرنیوالے ابن انشاء اردو ادب میں ایک ممتاز مقام رکھنے والے شاعر ہیں۔ابن انشاء نہ صرف ایک مکمل شاعر تھے بلکہ ان کے اندر اردو زبان کو ادبی ستاروں سے مزین کرنیوالی تمام خوبیاں واصناف موجود تھیں۔انشاء نے جہاں اردو نظم و غزل، کہانیوں، ناول، افسانوں، سفر ناموں، کالم نگاری ، تراجم ،بچوں کے عالمی ادب ، مکتوبات اور دیگر ادبی اصناف پر کام کیا۔ تحریر انداز بیاں اور جدا رنگ سخن کی وجہ سے میر، کبیر اور نظیر اکبر آبادی کے ہم قلم شاعر تھے۔ ان کے کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان کے اشعار گیت و غزل انسانی جذبات کے قریب تر ہوکر دل کی تار کو چھولیتے تھے۔ کیوں کہ شاعری کا تعلق دل کی واردات سے ہوتا ہے۔
انشاء کی شاعری میں حسن و جاذبیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ زبان میں اپنے جذبات اور احساسات کو بھرپور انداز میں جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اپنے دلکش اسلوب اور طرز خاص سے اردو غزل کو مقبول بناتے ہوئے انتہائی سادگی سے دلنشین انداز میں پیش کیا۔ابن انشاء نے اردو ادب میں جدت اور شگفتہ نگاری پر توجہ دی اور ایک ایسے انداز کی داغ بیل ڈالی جو ادبی دنیا میں ایک منفرد خصوصیت رکھتی ہے اور اسی خوبی کی وجہ سے انھیں بیسویں صدی کی ادبی دنیا میں ممتاز مقام ملا انھیں ان کی ادبی خدمات، شاعری، سفرناموں، خطوط، فکاہیہ، کالموں، تراجم، افسانوں، ناول، نگاری اور دیگر اضاف ادبی و علمی کاوشوں کی بدولت ادبیات اردو میں ایک معتبر نام کا رتبہ Man of Letters کا اعزاز حاصل ہوا۔
0 تبصرے