Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

سیر پہلے درویش کی(داستان) میر امن دہلوی

 سیر پہلے درویش کی(داستان)     میر امن دہلوی

سیر پہلے درویش کی     میر امن دہلوی

مصنف کا تعارف:
    میر امن دہلی میںپیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش اور ابتدائی حالات کے بارے میں کم معلومات دستیاب ہیں۔1761ء میں احمد شاہ ابدالی کے دہلی پر حملے کے بعد وہ عظیم آباد پٹنہ منتقل ہوگئے۔وہاں جب حالات خراب ہوئے تو کلکتہ آگئے۔اسی دوران ان کی ملاقات فورٹ ولیم کالج کے ہندوستانی زبانوں کے صدر اور کالج کے پرنسپل جان گلکریسٹ سے ملاقات ہوئی۔ فورٹ ولیم کالج میں بہ حیثیت منشی ان کا تقرر عمل میں آیا۔پانچ سال وہاں ملازمت کرنے کے بعد 1806ء میں وہ سبکدوش ہوئے۔فورٹ ولیم کالج میں انہوں نے قصہ چہار درویش کو آسان اردو میں باغ و بہار کے نام سے لکھا۔یہ ان کی طبع زاد تصنیف نہیں ہے۔ اس سے قبل حسین عطا خاں تحسین نے نو طرز مرصع کے نام سے یہ داستان لکھی تھی۔میر امن نے دہلی کی تہذیب کے بیان کو اجاگر کرتے ہوئے اس داستان کو سادہ نثر میںلکھا جس کی مقبولیت آج بھی ہے۔ نصابی کتاب میں پہلے درویش کی سیر کا اقتباس دیا گیا ہے جس کا خلاصہ اس طرح ہے۔
خلاصہ سیر پہلے درویش کی
    میر امن نے داستان ’’ باغ و بہار‘‘ میں قصہ چہار درویش کو پیش کیا ہے۔ اس داستان میں ایک بادشاہ اور چار درویش زندگی کے مسائل سے پریشان ہوکر ایک قبرستان میں آبیٹھتے ہیں۔ اور رات بسر کرنے کے لیے اپنی اپنی زندگی کا قصہ بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ پہلا درویش اپنی داستان سناتے ہوئے کہتا ہے کہ میں ملک یمن کا رہنے والا ہوں۔میرے والد ملک التجار خواجہ احمد بہت بڑے سوداگر تھے۔ان کے پاس بے پناہ دولت تھی اور ان کی بہت بڑی تجارت تھی۔ ان کی دو اولادیں تھیں ایک میں اور دوسری میری بہن ۔ جس کی والد صاحب نے زندگی میں ہی شادی کردی تھی اور اب وہ اپنے سسرال میں رہتی ہے۔ میں اپنے ماں با پ کا اکلوتا بیٹا تھا دولت کی فراوانی تھی اس لیے بچپن عیش میں گزرا۔ والدین جب قضائے الٰہی سے فوت ہوگئے تو لوگوں نے سمجھا بجھا کر میرا غم ہلکا کیا اور باپ کی جگہ مجھے ان کی تجارت دیکھنے کی ذمہ داری لگائی۔ پہلی مرتبہ والد کی چھوڑی ہوئی بے پناہ دولت دیکھی تو جی للچایا۔ دوست احباب کو جمع کیا اور عیش و عشرت کی محفلیں جمنے لگیں۔مفت کی دولت سمیٹنے اور عیش کرنے بہت سے دوست احباب جمع ہوگئے ۔ آٹھ پہر رنگ و نور کی محفلیں سجتیں۔ کاروبار سے توجہ ہٹ گئی۔ شراب نوشی ۔ناچ گانا سب کچھ ہوتا رہا۔ نوکر چاکر نے مالک کے یہ عیش دیکھے تو جس کو جو سوجھا لوٹنے لگا۔ پتہ نہیں چلتا تھا کہ کتنا روپیہ خرچ ہورہا ہے۔کہاں سے آتا ہے اور کدھر جاتاہے۔کچھ سال یوں ہی گزرے اور مال چاہے قارون کا خزانہ ہی کیوں نہ ہو جب خرچ ہونے لگے تو ختم ہی ہوجاتا ہے عالم یہ ہوا کہ فقط ٹوپی اور لنگی بچ گئی۔جو دوست یار تھے جب تک دولت تھی ساتھ رہے بعد میں سب دور ہوگئے۔راستے میں ملاقات بھی ہوتی تو منہ چراتے۔ کھانے کو کچھ نہ تھا۔ روکھی سوکھی کھا کر گزاری۔ پھر بے غیرتی کا خیال آیا کہ بہن کے پاس جاکر کچھ مدد طلب کی جائے۔ بہن نے خط بھی لکھے تھے لیکن اس کا جواب نہیں دے پایا تھا۔ لیکن مجبوری کے آگے وہی ایک راستہ تھا کسی طرح گرتے پڑتے بہن کے گائوں پہونچا۔ بہن نے یہ حالت دیکھی تو بلائیں لیں۔بہت روئی تیل اور کالے ٹیکے کا صدقہ اتارا۔بہن نے کہا کہ ملنے کی تو خوشی ہے لیکن آپ نے اپنی یہ کیا حالت بنا رکھی ہے۔میری آنکھ میں آنسو آئے بہن نے فوری اچھے لباس کا انتظام کیا ۔ نہانے کا انتظام کیا۔ بھائی کو رہنے کے لیے پرتکلف مکان دیا۔ اور کھانے کے لیے اپنے وقت کے بہترین کھانوں کا انتظام کیا۔ میر امن نے اس وقت شاہی گھرانوں میں جو کچھ کھانے کی چیزیں ہوتی تھیں سب کا ذکر یہاں کیا جیسے حلوا۔سوہن پستہ۔مغزی۔ میوے خشک و تر۔پلائو۔نان قلیے۔کباب۔ غرض ہر قسم کے کھانوں سے بہن نے بھائی کی تواضع کی۔ کچھ دن تو بہن بھائی کی خدمت کرتی ہے پھر وہ اسے سمجھاتی ہے کہ مرد کو اللہ نے کمانے کے لیے بنایا ہے۔گھر میں بیٹھے رہنا مناسب نہیں ہے۔تم یہاں آئے مجھے خوشی ہوئی۔یہاں کے لوگ تمہیں اور مجھے برا کہیں گے کہ ماں باپ کا نام روشن نہ کیا اور بہن کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے۔ بہنوائی بھی ناراض ہوں گے۔میرا مشورہ ہے کہ تم سفر کا ارادہ کرو۔ خدا چاہے تو دن پھریں گے اور حیرانی و مفلسی کے بدلے خوشی حاصل ہوگی۔
    یہ بات سن کر درویش کو غیرت آتی ہے وہ کہتا ہے کہ تم ماں کی جگہ میری سرپرست ہو۔جو کہو میں کروں گا۔ اس نے کہا کہ ایک قافلہ سوداگروں کا دمشق کو جاتاہے ۔ میں تمہارے لیے کچھ روپیوں کا انتظام کرتی ہوں تم سامان تجارت خریدو۔ ایک تاجر ایماندار کے حوالے کرکے دستاویز پکی لکھ لو اور آپ بھی ساتھ سفر میں رہو۔اور تجارت کے بعد جو کچھ منافع ملے اسے اپنے پاس رکھو۔درویش بہن کی جانب سے دی جانے والی امداد کے ذریعے تجارت کا سامان خریدتاہے۔ایک بڑے سوداگر کے حوالے کرتا ہے اور کاروباری انداز میں لکھ لیتا ہے۔تاجر دریا کی راہ سے روانہ ہوا اور یہ خشکی کے راستے سے دمشق کے لیے روانہ ہوا۔جب یہ روانہ ہونے لگا تو بہن نے اچھا خاصا توشہ کھانے اور پانی کا دیا۔ سفر کے لیے گھوڑا دیا۔ بازو پر امام ضامن باندھے ۔ اور بولی کے خدا حافظ میں تمہیں خدا کی امان میں دیتی ہوں۔ پیٹھ دکھاتے جائو اور بہت جلد منہ دکھائو۔ درویش خیر کی دعا پڑھتا ہوا سفر پر روانہ ہوا۔ اور کسی طرح دمشق جا پہونچا۔
    میر امن نے پہلے درویش کی سیر کے اس حصے میں بھائی بہن کی محبت پیش کی۔ اور اس دوران اس دور کی تہذیب اچھے اور برے وقت میں لوگوں کے برتائو کو بیان کیا۔ دراصل اس قصے کے بیان کا مقصد اس دور کی تہذیب کا بیان تھا کہ کس طرح خوشحالی کے موقع پر لوگوں کی زندگی کا حال ہوتا تھا اور پریشانی میں لوگ کس طرح ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ بھائی کی پریشانی میں بہن کی مدد جاتے وقت سامان سفر کا انتظام کرنا امام ضامن باندھ کر اللہ کے حوالے کرنا یہ سب اس دور کی تہذیب تھی جس کے نقشے اس داستان میں پیش ہوئے ہیں۔
مرکزی خیال: پہلے درویش کی سیر کے بیان کے دوران میرامن نے انیسویں صدی کے ہندوستان کی وہ تصویر پیش کی ہے جب کہ یہاں خوشحالی عام تھی لیکن جب عیش و عشرت کی زندگی گزاری جائے تو کیسے مسائل پیش آتے ہیں۔ بھائی کی پریشانی میں بہن کی مدد ہندوستانی تہذیب کا حصہ ہے جسے میر امن نے تفصیل سے پیش کیا ہے۔
فرہنگ
شب        :    رات
مہاجن        :    ساہوکار۔سودی کاروبار چلانے والے بیوپاری
ملک التجار        :    تجارت کرنے والوں کا سردار۔دولت مند تاجر
گماشتہ        :    نوکر۔کارندہ۔ملازم۔ جس کے ذمہ لین دین کی ذمہ داری ہو
جنس        :    اناج۔غلہ۔چیز۔شئے
قبلہ گاہ        :    والد۔ والد کے لیے احتراماً کہا جاتا ہے
کسب        :    ذریعہ۔ہنر۔فن۔
بہی کھاتا        :    وہ کتاب یا رجسٹر جس میں حساب درج کیا جائے
فراش        :    فرش کی صفائی کرنے والا۔روشنی کا انتظام کرنے والا
چلون        :    چلمن
پھانکڑے        :    مسٹنڈے۔لچے ۔لفنگے
سودا        :    جنون۔دیوانگی
ورخرچی        :    اسراف۔شاہ خرچی۔فضول خرچی
ٹھڈیاں        :    اناج کے بھونے ہوئے دانے جیسے چنے مکئی کے دانے
کالے ٹکے    :    کالے دانے۔بھلاواں
مغزی        :    پستہ و بادام کے سفید ٹکڑوں کا حلوا
تصدیع        :    مصیبت۔درد۔تکلیف
بیرن        :    بھائی(چھوٹا)
نہال کرنا        :    خوش کرنا
گھر سینا        :    بے کار گھر میں پڑا رہنا
توڑا        :    ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی
اصیل        :    خالص
ساز        :    موسیقی۔گھوڑے کی پیٹھ پر نرم زین

I    مندرجہ ذیل عبارت کی بحوالہ متن تشریح کیجئے۔

    1۔    ’’یک بہ یک ایک ہی سال میں والدین قضائے الٰہی سے مرگئے‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت باغ وبہار داستان کے حصے’’ سیر پہلے درویش کی‘‘ سے لی گئی ہے جس کے مصنف میر امن ہیں ۔
تشریح:    اس عبارت میں میر امن نے پہلے درویش کا حال بیان کیا ہے۔ جو یمن سے تعلق رکھتا تھا وہ ایک دولت مند تاجر خواجہ احمد کا اکلوتا بیٹا تھا۔ بڑے ناز و نخروں سے اس کی پرورش ہوتی ہے۔پڑھنے لکھنے کے علاوہ سپاہ گری‘کسب و فن‘بہی کھاتہ اور روزانہ کے کاروبار سیکھا۔ چودہ سال تک بڑی بے فکری اور خوشی کے ساتھ اس کی زندگی بسر ہوتی ہے کہ اچانک ایک سال قضائے الٰہی سے اس کے والدین کا انتقال ہوجاتا ہے۔ درویش ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے سے مایوس ہوجاتا ہے لیکن اس کے دوست احباب اس کی ہمت بندھاتے ہیں اور چہلم کے بعد اس کے باپ کی جگہ اسے والدین کی وراثت سونپ دیتے ہیں۔ اس طرح درویش اپنے بچپن کے حالات بیان کرتا ہے۔
مرکزی خیال : درویش دولت مند گھرانے کا اکلوتا بیٹا تھا۔ چودہ سال تک ناز و نخروں سے اس کی پرورش ہوتی ہے والدین کے انتقال پر گھر کی ذمہ داری اس کے حصے میں آجاتی ہے۔
    2۔  ’’ غرض آدمی کا شیطان آدمی ہے‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت باغ وبہار داستان کے حصے’’ سیر پہلے درویش کی‘‘ سے لی گئی ہے جس کے مصنف میر امن ہیں ۔
تشریح:    اس عبارت میں میر امن نے پہلے درویش کے بگڑ جانے کا حال بیان کیا ہے۔جس میں وہ کہتا ہے کہ اس کے والدخواجہ احمد اپنے زمانے میں یمن کے بہت بڑے تاجر تھے۔ گھر میں دولت کی ریل پیل تھی۔اکلوتا بیٹا ہونے کے سبب اس کی شان و شوکت اور ناز و نخروں سے پرورش ہوئی تھی۔ جب وہ چودہ سال کا ہواتو اس کے والدین کا انتقال ہوگیا تھا۔چہلم کے بعد دوست احباب اور رشتے داروں نے اسے گھر کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے کہا۔ مال ودولت دیکھ کر جوانی کے جوش اور شیطان کے بہکاوے میں آکر وہ عیش پرستی میں ڈوب گیا۔شراب نوشی اور رقص و سرور کی محفلیں سجاتا رہا۔جب سب دولت لٹ گئی یار دوست دور چلے گئے تو اسے احساس ہوا کہ اس نے دولت کی ناقدری کی۔
مرکزی خیال:   دولت دیکھ کر انسان شیطانی حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ پہلا درویش دولت کے نشے میں چور عیش پرستی میں ڈوب گیا۔ اور ٹھوکر کھا کر اسے احساس ہوا کہ دولت جیسی نعمت کی ناقدری نہیں کرنی چاہئے۔
3۔    ’’ اے بیرن تو میری آنکھوں کی پتلی اور ماں باپ کی موئی مٹی کی نشانی ہے‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت باغ وبہار داستان کے حصے’’ سیر پہلے درویش کی‘‘ سے لی گئی ہے جس کے مصنف میر امن ہیں ۔
تشریح:    اس عبارت میں میر امن نے پہلے درویش کی بہن کی جانب سے بھائی کو دوبارہ اپنی زندگی جمانے کی ترغیب کا بیان ہے۔ مال و دولت لٹ جانے کے بعد کنگال درویش اپنی بہن کے گھر جاتا ہے تو وہ اس کی ہر طرح سے آئو بھگت کرتی ہے۔ بہت دن تک مہمان نوازی کرنے کے بعد وہ اپنے بھائی سے کہتی ہے کہ تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اور ماں باپ کی نشانی ہے۔ تجھے دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔لیکن میری بات سن کہ خدا نے مردوں کو کمانے کے لیے بنایا ہے ۔ گھر میں بیٹھنے کے لیے نہیں۔ جو مرد کام چور ہو کر گھر میں پڑے رہتے ہیں دنیا ان کو طعنہ دیتی ہے۔اگر تم بھی کچھ نہ کرو تو لوگ طعنہ دیں گے کہ اتنے بڑے تاجر کا بیٹا ایسا نالائق میں تمہیں کچھ دولت دوں گی اس سے تجارت کا سامان خریدو اور دوبارہ اپنی زندگی کو بہتر بنائو۔
مرکزی خیال:    مصیبت کے وقت بہن اپنے بھائی کے کام آتی ہے۔ اور اس کی مدد کرتے ہوئے اسے پھر سے کاروبار جمانے کی نصیحت کرتی ہے۔
اضافی متن کے حوالے
4    ’’ کئی برس کے عرصے میں ایک بارگی یہ حالت ہوئی کہ فقط ٹوپی اور لنگوٹی باقی رہی‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت باغ وبہار داستان کے حصے’’ سیر پہلے درویش کی‘‘ سے لی گئی ہے جس کے مصنف میر امن ہیں ۔
تشریح:    اس عبارت میں میر امن نے پہلے درویش کی جانب سے عیش کی زندگی گزارنے اور دولت کھودینے کے بعد کی حالت بیان کی۔ والدین کے انتقال کے بعد نوجوان سوداگر بہک گیا تھا اور شراب نوشی و رقص و سرور کی محفلیں سجاتے ہوئے بے تحاشہ دولت لٹانے لگا تھا۔ کچھ ہی دن بھی بعد جب اس کی دولت ختم  ہوگئی تو وہ کنگال ہوگیا اور اس کی حالت یہ ہوگئی کہ فاقوں کی نوبت آگئی ۔ اور اس کے جسم پر ایک ٹوپی اور لنگی ہی رہ گئی۔
مرکزی خیال:  انسان جب دولت جیسی نعمت کی ناقدری کرے تو وہ چھین لی جاتی ہے اور اس کا حال وہی ہوتا ہے جو درویش کا ہوا تھا۔
5۔    ’’ وہ ماں جائی میرا یہ حال دیکھ کر بلائیں لے اور گلے مل کر بہت روئی‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت باغ وبہار داستان کے حصے’’ سیر پہلے درویش کی‘‘ سے لی گئی ہے جس کے مصنف میر امن ہیں ۔
تشریح:    اس عبارت میں میر امن نے برباد بھائی کی بری حالت پر بہن کے رد عمل کو پیش کیا۔ ماں باپ کی دولت لٹا کر جب درویش کنگال ہوگیا تھا تو مدد کے لیے بہن کے گھر آتا ہے۔ بھائی کی بری حالت دیکھ کر بہن افسوس کرتی ہے۔ پہلے تو وہ اس سے گلے مل کر خوب روتی ہے کہ بھائی کی یہ حالت کیوں کر اور کس طرح ہوئی بعد میں وہ اس کے لئے اچھے لباس اور کھانوں کا انتظام کرتی ہے اور بہت دن تک اس کی خوب مہمان نوازی کرتی ہے۔
مرکزی خیال:  بہن ہمیشہ بھائی سے محبت رکھتی ہے اور مشکل وقت میں اس کے کام آتی ہے۔ درویش کی بہن اپنے بھائی کے برے وقت میں اس کا ساتھ دیتی ہے۔
6۔    ’’ سدھارو۔تمہیں خدا کو سونپا! پیٹھ دکھاتے جاتے ہو اس طرح جلد اپنا منہ دکھائیو‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت باغ وبہار داستان کے حصے’’ سیر پہلے درویش کی‘‘ سے لی گئی ہے جس کے مصنف میر امن ہیں ۔
تشریح:    اس عبارت میں میر امن نے بہن کی جانب سے بھائی کو تجارت کا سامان دلا کر دمشق روانہ کرنے کا منظر بیان کیا ہے۔ دولت لٹا کر بہن کے گھر آنے والے بھائی کی بہن خوب خاطر مدارات کرتی ہے پھر اسے نصیحت کرتی ہے کہ مرد کام کے لیے بنا ہے اسے گھر بیٹھے نہیں رہنا چاہئے۔ وہ بھائی کو بہت ساری دولت دیتی ہے کہ وہ سامان تجارت خریدے کسی اچھے تاجر سے بات کرلے اور دمشق جاکر تجارت کو فروغ دے۔ بہن بھائی کو امام ضامن باندھتی ہے۔د ہی کا ٹیکا لگا کر اسے خدا حافظ کہتی ہے۔ اس سے کہتی ہے کہ پیٹھ دکھا کر جارہے ہو جلد منہ دکھانا۔ ہندوستانی تہذیب میں یہ بات شامل ہے کہ لوگ مہمان کو پھر واپس آنے کے لیے کہتے ہیں۔
مرکزی خیال:    بہن کی جانب سے بھائی کو سفر پر روانہ کیا جارہا ہے اور اس امید کا اظہار کیا جارہا ہے کہ وہ بہت جلد واپس آکر ملاقات کرے۔

II    پانچ سطروں میں جواب لکھیے۔

    1۔    سوداگر کے بہک جانے کا حال بیان کیجیے۔
جواب:    پہلے درویش کی سیرداستان کے اس حصے میں میر امن نے سوداگر کے بہک جانے کا واقعہ بیان کیا ہے۔ دولت کی فراوانی تھی اس لیے سوداگر کا بچپن عیش میں گزرا۔ والدین جب قضائے الٰہی سے فوت ہوگئے تو لوگوں نے سمجھا بجھا کر سوداگر کاغم ہلکا کیا اور باپ کی جگہ اسے ان کی تجارت دیکھنے کی ذمہ داری لگائی۔ پہلی مرتبہ والد کی چھوڑی ہوئی بے پناہ دولت دیکھی تو جی للچایا۔ دوست احباب کو جمع کیا اور عیش و عشرت کی محفلیں جمنے لگیں۔مفت کی دولت سمیٹنے اور عیش کرنے بہت سے دوست احباب جمع ہوگئے ۔ آٹھ پہر رنگ و نور کی محفلیں سجتیں۔ کاروبار سے توجہ ہٹ گئی۔ شراب نوشی ۔ناچ گانا سب کچھ ہوتا رہا۔ نوکر چاکر نے مالک کے یہ عیش دیکھے تو جس کو جو سوجھا لوٹنے لگا۔ پتہ نہیں چلتا تھا کہ کتنا روپیہ خرچ ہورہا ہے۔کہاں سے آتا ہے اور کدھر جاتاہے۔کچھ سال یوں ہی گزرے اور مال چاہے قارون کا خزانہ ہی کیوں نہ ہو جب خرچ ہونے لگے تو ختم ہی ہوجاتا ہے عالم یہ ہوا کہ فقط ٹوپی اور لنگی بچ گئی۔اس طرح عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے سبب سوداگر فقیر ہوگیا۔
2۔    بہن اپنے بھائی سے کس قدر محبت کرتی ہے۔
جواب:دولت لٹ جانے کے بعد جب کہیں سے مدد نہیں ملی تو سوداگربہن کے گائوں پہونچا۔ بہن نے بھائی کی یہ حالت دیکھی تو اس کی بلائیں لیں۔بہت روئی تیل اور کالے ٹیکے کا صدقہ اتارا۔بہن نے کہا کہ ملنے کی تو خوشی ہے لیکن آپ نے اپنی یہ کیا حالت بنا رکھی ہے۔میری آنکھ میں آنسو آئے بہن نے فوری اچھے لباس کا انتظام کیا ۔ نہانے کا انتظام کیا۔ بھائی کو رہنے کے لیے پرتکلف مکان دیا۔ اور کھانے کے لیے اپنے وقت کے بہترین کھانوں کا انتظام کیا۔ بہت دن تک مہمان نوازی کے بعد بہن نے بھائی کو پھر سے اپنی تجارت جمانے کی نصیحت کی۔
 3۔    پہلے درویش کو بہن کیا نصیحت کرتی ہے۔
جواب:    مال و دولت لٹ جانے کے بعد کنگال درویش جب اپنی بہن کے گھر جاتا ہے تو وہ اس کی ہر طرح سے آئو بھگت کرتی ہے۔ بہت دن تک مہمان نوازی کرنے کے بعد وہ اپنے بھائی سے کہتی ہے کہ تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اور ماں باپ کی نشانی ہے۔ تجھے دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔لیکن میری بات سن کہ خدا نے مردوں کو کمانے کے لیے بنایا ہے ۔ گھر میں بیٹھنے کے لیے نہیں۔ جو مرد کام چور ہو کر گھر میں پڑے رہتے ہیں دنیا ان کو طعنہ دیتی ہے۔اگر تم بھی کچھ نہ کرو تو لوگ طعنہ دیں گے کہ اتنے بڑے تاجر کا بیٹا ایسا نالائق میں تمہیں کچھ دولت دوں گی اس سے تجارت کا سامان خریدو اور دوبارہ اپنی زندگی کو بہتر بنائو۔اس طرح نصیحت کے بعد وہ اس کی دوبارہ تجارت جمانے میں مدد دیتی ہے۔

III    ایک لفظ یا جملہ میں جواب لکھیے۔

     1۔    پہلا درویش کس ملک سے تعلق رکھتا تھا۔
جواب:        ملک یمن
     2۔    بہن بھائی سے کس قدر محبت کرتی ہے۔
جواب:        بہن بھائی سے بھر پور محبت کرتی ہے اور مصیبت میں اس کا سہارا بنتی ہے۔
    3۔    باغ و بہار میں کتنے درویشوں کی سیر کا ذکر ہے۔
جواب:        باغ و بہار میں چار درویشوں کی سیر کا ذکر ہے۔
     4۔    پہلے درویش کے والد کا نام کیا ہے۔
جواب:        خواجہ احمد سوداگر
    5۔    نو طرز مرصع کا مصنف کون ہے۔
جواب:        حسین عطا خاں تحسین

IV    پندرہ سطروں میں جواب لکھیے۔

    1۔    ’’ سیر پہلے درویش کی‘‘ کا خلاصہ اپنی زبان میں لکھیے۔
جواب:        ( جواب کے لیے سبق کا خلاصہ پڑھیں)
    2۔    میر امن کے انداز تحریر پر نوٹ لکھیں۔
    3۔    میر امن کے بارے میں اپنی معلومات کا اظہار کیجئے۔

جواب:    باغ وبہار میرامن دہلوی کی داستانوی کتاب ہے جو اْنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔ عام خیال ہے کہ باغ و بہار کو میر امن نے امیر خسرو کی فارسی داستان قصہ چہار درویش سے اردو میں ترجمہ کیا ہے لیکن یہ خیال پایہ استناد کو نہیں پہنچتا۔ باغ و بہار فورٹ ولیم کالج کی دین ہے جو انگریزوں کو مقامی زبانوں سے آشنا کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ میرامن نے باغ و بہار کو جان گل کرائسٹ کی فرمائش پر میر حسین عطا تحسین کی نو طرز مرصع سے ترجمہ کیا ہے۔ اس طرح یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
    داستانوں میں جو قبول عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا۔ عوام اور خواص دونوں میں یہ داستان آج بھی اتنی ہی مقبول ہے جتنی آج سے پونے دو سو برس پہلے تھی۔ اس کی غیر معمولی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ اس کا دلکش اسلوب اور دلنشین انداز بیان ہے جو اسے اردو زبان میں ممتاز مقام عطا کرتے ہیں۔باغ و بہار اپنے وقت کی نہایت فصیح اور سلیس زبان میں لکھی گئی ہے۔ میر امن دہلی کے رہنے والے ہیں اور اْن کی زبان ٹھیٹھ دہلی کی زبان ہے۔ میر امن صرف دہلی کی زبان کو ہی مستند سمجھتے ہیں چنانچہ اس کو انہوں نے ہزار رعنائیوں کے ساتھ استعمال کیا ہے۔  اردو کی پرانی کتابوں میں کوئی کتاب زبان کی فصاحت اور سلاست کے لحاظ سے باغ و بہار کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگرچہ زبان میں کئی تبدیلیاں ہو چکی ہیں، الفاظ و محاورات اور فقرات و تراکیب میں مختلف النوع تغیرات آ گئے ہیں اس وقت کی زبان اور آج کی زبان میں بڑا فرق ہے لیکن باغ و بہار اب بھی اپنی دلچسپی برقرار رکھے ہوئے ہے یہ دلکش اعجاز میر امّن کے طرزِ بیان اور اسلوبِ تحریر کا حصہ ہے۔ میر امن ہر کیفیت اور واردات کا نقشہ ایسی خوبی سے کھینچتے اور ایسے موزوں الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ کمال انشا پردازی کی داد دینا پڑتی ہے۔ نہ بے جا طول ہے نہ فضول لفاظی ہے۔باغ و بہار کی عبارت کی سادگی اور روانی جہاں بجائے خود ایک طرح کا حسن و لطافت ہے اس میں اس اندیشہ کا امکان بھی کسی وقت نہیں ہوتا کہ یہ سادگی عبارت کو سپاٹ بنا دے اور سادگی کا یہ ہموار تسلسل پڑھنے والے کے لیے اکتاہٹ یا تھکاوٹ کا باعث بن جائے۔ میر امن کی سادگی کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ وہ پڑھنے والے کے ذہن پر کسی جگہ بھی اکتاہٹ اور تھکاوٹ کا بوجھ نہیں ڈالتی۔
    مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو باغ و بہار ان چند کتابوں میں سے ہے جن کی زبان اور طرز بیان ان کے نفس مضمون سے زیادہ اہم ہے یہ ایک ایسے اسلوب کی نمائندہ ہے جس کی کوئی تقلید نہ کر سکا۔ پھر بھی باغ و بہار کے باغ پر ہمیشہ بہار رہی ہے اور رہے گی۔باغ و بہار نہ صرف دلی کی معاشر ت کی آئینہ دار ہے بلکہ اس میں دہلوی ذہن بھی اجاگر نظرآتا ہے باغ و بہار کے محاورے دلی والوں کے ذہنی میلانات کے کامیاب عکاس ہیں۔یوں تو با غ و بہار ایک داستا ن ہے اس کی حیثیت اردو کے افسانوی ادب میں ایک سنگ میل کی سی ہے۔ اور اسے زبان و ادب کے ایک شاہکار کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ اپنے زمانے کی اجتماعی زندگی کی ایک مکمل دستاویز ہے۔ یہ اپنے عہد کے معاشرے اور تہذیبی احوال و آثار و واقعات و کوائف کا مستند تاریخی ریکاڈ ہے۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے