Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

پنچایت(افسانہ) پریم چند

 پنچایت(افسانہ)        پریم چند

پنچایت       پریم چند

افسانے کی تعریف
    افسانہ سے مراد زندگی سے متعلق کسی واقعے کا اختصار کے ساتھ ایسا فنکارانہ بیان ہے جس میں وحدت تاثر ہو اور وہ قاری کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑے۔ افسانے میں حقیقی زندگی کے کسی واقعے کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ کوئی ایک پہلو واضح ہوجائے۔افسانے کے اجزائے ترکیبی میں 1) موضوع  2) پلاٹ3  )کردار 4)مکالمے5) زماں ومکاں اور منظر نگاری6) تکنیک7) انجام اور وحدت تاثر8) اسلوب9) عنوان۔ وغیرہ شامل ہیں۔ پریم چند۔ کرشن چندر۔ بیدی۔منٹو ۔عصمت چغتائی وغیرہ اردو کے مشہور افسانہ نگار گزرے ہیں۔
 مصنف کا تعارف
منشی پریم چند(1880-1936) اردو کے مشہور افسانہ نگار و ناول نگار گزرے ہیں۔ ان کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔والد کا نام منشی عجائب لال تھا۔بنارس کے ایک گائوں ملبی میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم مدرسے میں ہوئی۔تعلیم سے فراغت کے بعد محکمہ تعلیمات میں ملازم ہوئے۔ان کا شمار اردو کے اولین اور صف اول کے افسانہ نگاروں میںہوتا ہے۔ انہوں نے اردو افسانے کو فن کی بلندیوں تک پہونچایا۔پریم چند نے 300سے ذائد افسانے اور کہانیاں لکھیں۔ انہوںنے ایک درجن ناول بھی لکھے۔پریم چند کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’ سوز وطن ‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مجموعے پریم پچیسی۔پریم بتیسی۔واردات۔زاد راہ اور آخری تحفہ ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ ان کے مشہور افسانے سوتیلی ماں۔گلی ڈنڈا۔ستیہ گرہ۔بڑے گھر کی بیٹی۔پوس کی رات۔عید گاہ۔کفن اور نجات ہیں۔ان کے مشہور ناولوں میں چوگان ہستی۔اسرار معابد۔جلوہ ایثار۔بازار حسن۔گوشہ عافیت۔میدان عمل اور گئو دان ہیں۔ انہوں نے ایک رسالہ ’’ہنس‘‘ بھی نکالا تھا۔پریم چند کے افسانوں میں حقیقت پسندی اور اصلاحی انداز ملتا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں ہندوستان کے دیہات کی زندگی۔ کمزور طبقات کی کشمکش۔ زمینداروں کے مظالم وغیرہ کو فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔عام طبقے کے انسان ان کے افسانوں کے کردار ہیں۔حب وطن۔سماجی انصاف کی خواہش‘گاندھی واد اور ترقی پسند تحریک نے ان کے افسانوں کو بلندی عطا کی۔ ان کی تخلیقات کا محور انسان دوستی ہے۔ ان کا انتقال1936ء میں ہوا۔ ان کا ایک افسانہ ’’ پنچایت‘‘ ہے جس کا خلاصہ ذیل میں پیش ہے۔
خلاصہ:
منشی پریم چند(1880-1936) اردو کے مشہور افسانہ نگار و ناول نگار گزرے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں دیہاتی زندگی کو پیش کیا ہے۔ ان کا ایک افسانہ پنچایت ہے جس میں انہوں نے پنچایت کی اہمیت اجاگر کی ہے۔اس افسانے میں پریم چند نے گائوں کے دو دوستوں جمن شیخ اور الگو چودھری کی دوستی کو بیان کیا ہے۔ جو بچپن سے گہرے دوست تھے۔ مل کر کھیتی کرتے تھے اور سفر میں جانا ہو تو ایک دوسرے کے گھروں کی نگرانی کرتے تھے۔ دونوں نے بچپن میں جمن کے والد شیخ جمعراتی کی شاگردی میں علم و ادب سیکھا تھا۔ الگو کے والد کہتے تھے کہ تعلیم سے کچھ نہیں ہوتا استاد کی دعا چاہئے اس لئے الگو نے پڑھائی سے زیادہ استاد کی خوب خدمت کی اور دعائیں لیں۔ جمن کو بھی انہوں نے مار پیٹ کر اس قابل بنادیا تھا کہ بڑا ہوکر وہ اپنے علاقے کا قابل منشی بن گیا تھا اور لوگ اس کے لکھے بیعنامہ اور رہن نامہ میں کوئی غلطی نہیں نکالتے تھے۔ان کی دوستی مثالی تھی۔ پریم چند افسانے کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جمن کی ایک خالہ تھیں جن کے پاس کچھ جائیداد تھی۔ جمن نے نے اپنی خالہ سے زندگی بھر ان کی خدمت کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے ان سے وہ جائیداد اپنے نام کرالی۔ جب تک کاغذات تیار نہیںہوئے جمن نے ان کی خوب خدمت کی اور جب جائیداد اس کے نام ہوگئی تو وہ آہستہ آہستہ خالہ کی خدمت میں کمی کرنے لگا۔میاں بیوی دونوں خالہ کو نظر انداز کرنے لگے۔ خالہ نے کہا کہ میرا تمہارے ساتھ گزارا نہیں ہوگا مجھے روپیہ دے دو میں الگ پکوان کرلوں گی۔ جمن اور اس کی بیوی خالہ کو پیسے دینے سے انکار کردیتے ہیں۔ خالہ جمن سے شکوہ کرتی ہے ۔ گائوں والوں سے شکایت کرتی ہے۔جب اس کی کوئی نہیں سنتا تو گائوں گائوں پھر کر پنچایت بٹھانے کی درخواست کرتی ہے۔ جمن کو اندازہ تھا کہ گائوں میں جو اس کی عزت ہے تو پنچایت بھی اس کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دے گی۔ آخر کار ایک دن شام کے وقت پیڑ کے نیچے پنچایت جمع ہوتی ہے۔ گائوںکے بڑے بوڑھے سب پنچایت میں بیٹھتے ہیں۔ خالہ پنچوں سے کہتی ہے کہ تین سال ہوئے جمن نے میری جائیداد اپنے نام کرلی اس نے مجھے تا حیات روٹی کپڑا دینے کا وعدہ کیا تھا۔لیکن کچھ دن بعد اپنے وعدے سے مکر گیا اور اب مجھے دو وقت کی روٹی کے لیے ترسا رہا ہے ۔ اب میں کسی کورٹ کچہری کو نہیں جاسکتی پنچایت سے گزارش کرتی ہوں کے میرے لئے کچھ انصاف کیا جائے۔ پنچایت کے لوگوں نے جمن سے پنچ بنانے کے لیے کہا۔ تب جمن نے غرور سے کہا کہ خالہ جسے چاہے پنچ بنالے۔ خالہ نے الگو چودھری کا نام لیا۔ الگو جمن کا خاص دوست تھا وہ پنچ بننا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن خالہ کہتی ہے کہ دوستی کی خاطر ایمان نہیں بیچا جاتا پنچ کا حکم اللہ کا حکم ہوتا ہے۔ پنچ کے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہ اللہ کی طرف سے نکلتی ہے۔خالہ کی بات سن کر الگو پنچ بننے کے لیے راضی ہوجاتا ہے وہ پنچ بن جانے کے بعد اپنے دوست جمن سے جرح کرتے ہوئے کئی سوالات کرتا ہے جمن اپنی کھیتی باڑی میں کمی کا بہانہ بناتا ہے اور خالہ کی مدد سے انکار کردیتا ہے۔ الگو کے سوالات سے جمن پریشان ہوجاتا ہے کہ دوستی نباہنے والا الگو پنچ بنتے ہی کیسا بدل گیا۔ دونوں فریقین کی باتیں سننے کے بعد الگو فیصلہ دیتا ہے کہ جمن تمہاری غلطی ہے۔ کھیتوں سے تمہیں نفع ملتا ہے۔ وعدے کے مطابق تمہیں خالہ کے گزارے کا بندوبست کرنا ہوگا۔ اگر تم نے پنچایت کا فیصلہ نہیں مانا تو تمہار ہبہ نامہ منسوخ ہوجائے گا۔ جمن کے خلاف الگو کے فیصلے کو گائوں والے پسند کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا دوستی الگ پنچایت الگ۔ پنچ کی کرسی پر بیٹھ کر ایمان سلامت رکھنا ضروری ہے جو الگو نے کیا۔الگو کے فیصلے سے دونوں کی دوستی کم ہوگئی اور جمن کسی بدلے کی تلاش میں رہنے لگا۔
    افسانے کے دوسرے حصے میں پریم چند نے الگو چودھری کا قصہ بیان کیا ہے۔ جنہوں نے پاس کے میلے سے دو خوبصورت بیل خریدے تھے۔ جنہیں دیکھنے کے لیے گائوں والے آیا کرتے تھے۔ کچھ دن بعد الگو کا ایک بیل مرگیا۔ الگو کو شبہ ہوا کہ کہیں جمن نے تو اسے زہر نہیں دیا۔ الگو نے دوسرا بیل سمجھو سیٹھ کو بیچ دیا جو بیل کو بنڈی میں لگا کر سامان ادھر سے ادھر لے جاتے تھے۔سمجھو سیٹھ نے ایک ماہ بعد بیل کی قیمت ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے ایک مہینے تک بیل سے خوب کام لیا لیکن اسے مناسب چارہ نہیں دیا۔ کام کی زیادتی اور چارے کی کمی سے ایک دن بیل راستے میں ہی بیٹھ کر مرگیا۔سمجھو سیٹھ کی بیوی کوسنے لگی کی الگو نے اس منحوس بیل دیا۔ بیل کے مرجانے کے بعد جب الگو نے بیل کی قیمت کا مطالبہ کیا تو سمجھو سیٹھ نے پیسے دینے سے انکارکردیا۔الگو اور سمجھو سیٹھ میں تو تو میں میں ہوکر لڑائی کی نوبت آگئی۔ گائوں والوں نے مشورہ دیا کہ پنچایت کرلو جو فیصلہ ہوگا دونوں کو ماننا ہوگا۔ ایک دن پنچایت بٹھائی گئی۔ سب گائوں والے جمع ہوئے۔جب پنچ طے کرنے کی بات آئی تو سمجھو سیٹھ نے جمن کو اپنا پنچ بنایا۔ یہ نام سن کر الگو چودھری مایوس ہوگئے کہ کہیں جمن پرانا بدلہ نا نکالے۔لیکن وہ جمن کے نام پر چپ رہے۔ شیخ جمن کو جب پنچ بنایا گیا تو انہیں بھی پنچ کی کرسی کی عظمت کا احساس ہوا۔ا نصاف کرسی پر بیٹھنے کے بعد انہوںنے سوچا کہ میری آواز خدا کی آواز ہے۔ اگر میں حق سے ہٹ جائوں گا تو دین اور دنیا سے ہٹ جائوں گا۔ پنچایت شروع ہوئی۔ جمن نے دونوں فریقوں کی بات سنی اور فیصلہ دیا کہ جس وقت الگو چودھری نے بیل دیا تھا اس وقت بیل صحت مند تھا سمجھو نے اس سے زیادہ کام لیا اور چارہ کم دیا جس کے سبب بیل مرگیا۔ اس لیے فیصلہ دیا گیا کہ الگو کو بیل کی قیمت ادا کی جائے۔جمن کا فیصلہ سن کر الگو بہت خوش ہوا دونوں گلے ملے۔ اور کہا کہ آج مجھے معلوم ہوا کہ پنچایت کی مسند پر بیٹھ کر نہ کوئی کسی کا دوست ہوتا ہے نہ دشمن۔ پنچ کا حکم اللہ کا حکم ہے اور پنچ کی کرسی پر بیٹھ کر انصاف کے سوا کچھ نہیں سوجھتا۔اس طرح پریم چند نے دو واقعات سنا کر پنچایت کی عظمت اور پنچ کی کرسی پر بیٹھ کر انصاف کرنے کی اہمیت واضح کی۔ یہ افسانہ قومی یکجہتی کی بھی اچھی مثال ہے۔
مرکزی خیال:    پریم چند نے جمن اور الگو کی دوستی اور پنچایت کے موقع پر دونوں کی جانب سے انصاف پر مبنی فیصلے دینے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے واضح کیا کہ جو کوئی انصاف کی کرسی پر بیٹھے گا اسے حق کا ساتھ دینا ہوگا۔ افسانہ پریم چند گائوں کی پنچایت کی اہمیت واضح کرتا ہے اور آج بھی ہمارے عدالتی نظام کو یہ سبق دیتا ہے کہ انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر غلط فیصلہ نہیں دینا چاہئے۔ دشمن کے خلاف بھی فیصلہ دینا ہو تو حق بات پر ہی فیصلہ دیا جائے۔
فرہنگ
پنچایت        :    وہ کمیٹی جو گائوں میں آپسی جھگڑے نپٹانے کے لیے بنائی جاتی ہے
مِلک         :    جائیداد
وعدہ وعید کرنا    :    ٹال مٹول کرنا
سبز باغ دکھانا    :    دھوکہ دینا۔خوش فہمی میں مبتلا کردینا
ہبہ نامہ        :    وہ دستاویز جس میں کسی چیز کے دینے کا اقرار لکھا جائے۔اقرار نامہ
بے اعتنائی        :    بے پروائی۔ لاپرواہی
تاحین حیات    :    عمر بھر
فرط مسرت    :    بے انتہا خوشی
شہادت        :    گواہی
کسر اٹھا نہ رکھنا    :    کوتاہی نہ کرنا۔کمی نہ کرنا
بن پڑنا        :    ہوسکنا
جرح        :    سچائی معلومات کرنے کے لیے سوالات کرنا
نیرنگی روزگار    :    زمانے کا انقلاب
مقدم        :    اولیت
ستیہ وادی        :    حق پرست
کنستر        :    پیپا۔ڈبا
بہ ہزار خرابی    :    بڑی مشکل سے
آنکھوں میں دھول جھونکنا:    دھوکہ دینا۔فریب کرنا
سرپھٹول        :    لڑائی جھگڑا کرنا
منکسرانہ        :    عاجزانہ
روسیاہ کرنا        :    منہ کالا کرنا۔بے عزت کرنا
رسواکرنا        :    بے عزتی کرنا
تاوان        :    جرمانہ
بھل منسی        :    انسانیت

سوالات

I    مندرجہ ذیل عبارت کی بحوالہ متن تشریح کیجیے۔

    1۔    ’’ نہ تم ہمارے دوست ہو نہ ہم تمہارے یہ انصاف اور ایمان کا معاملہ ہے‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت افسانہ ’’ پنچایت‘‘ سے لی گئی ہے۔جس کے مصنف پریم چند ہیں۔    
تشریح:    اس عبارت میں پریم چند نے جمن کے خلاف الگو کو پنچ بنائے جانے الگو کے خیالات کو پیش کیا گیا ہے۔ جب بوڑھی خالہ پنچایت میں جمن کے خلاف الگو چودھری کو پنچ منتخب کرتی ہے تو اپنے پرانے دوست سے اپنے حق میں فیصلے کی امید کرتے ہوئے جمن کہتاہے کہ الگو میرا بچپن کا دوست ہے وہ میرا خیال رکھے گا۔ تب پنچ کی کرسی پر بیٹھنے والے الگو چودھری جواب دیتے ہیں کہ زندگی میں آپ اور میں اچھے دوست رہے ہیں لیکن یہ پنچ کا معاملہ ہے اس وقت نہ تم ہمارے دوست ہو نہ ہم تمہارے دوست۔ یہ انصاف اور ایمان کا معاملہ ہے۔ وہ بوڑھی خالہ سے تفصیلات لیتے ہیں جمن سے جرح کرتے ہیں۔ اور پھر جمن کے خلاف اور خالہ کی تائید میں فیصلہ کرتے ہیں۔اس طرح انہوں نے دوست کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے پنچایت کی لاج رکھ لی۔
مرکزی خیال:    الگو جمن کا گہرا دوست ہے ۔لیکن جب جمن کے خلاف اسے پنچ بنایا جاتا ہے تو وہ حق کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے دوست کے خلاف اور مظلوم خالہ کی تائید میں فیصلہ دیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ پنچ کے معاملے میں دوستی نہیں چلتی۔
2۔    ’’ اس زمانے میں دوستی یہی ہے کہ جو اپنے پر بھروسا کرے اس کی گردن پرچھری پھری جائے‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت افسانہ ’’ پنچایت‘‘ سے لی گئی ہے۔جس کے مصنف پریم چند ہیں۔    
تشریح:    اس عبارت میں پریم چند نے جمن کے خلاف الگو کے فیصلے پر جمن کے غصے کو پیش کیا ہے۔ جب خالہ کی شکایت پر پنچ میں الگو چودھری اپنے بچپن کے دوست جمن کے خلاف فیصلہ دیتا ہے تو جمن غصے میں کہتا ہے کہ اس زمانے میں کیا یہی دوستی کا صلہ ہے کہ جو اپنے پر بھروسہ کرے وہی دوست کی گردن پر چھری چلادے ۔لیکن پنچایت کے دوسرے لوگ الگو کے فیصلے سے خوش ہوتے ہیں کہ اس نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا اور حق کے ساتھ فیصلہ دے کر پنچایت کی لاج رکھی لی۔
مرکزی خیال:    بچپن کے دوست الگو کی جانب سے دوست جمن کے خلاف فیصلہ سنتے ہیں جمن غصے میں کہتا ہے کہ تم نے دوست کی گردن پر چھری چلادی جب کہ الگو نے پنچایت کی لاج رکھی تھی اور حق کے ساتھ فیصلہ دیا تھا۔
3۔    ’’ آج مجھے یقین آگیا کہ پنچ کا حکم خدا کا حکم ہے‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت افسانہ ’’ پنچایت‘‘ سے لی گئی ہے۔جس کے مصنف پریم چند ہیں۔    
تشریح:    اس عبارت میں پریم چند نے جمن کے خیالات اور جذبات کو پیش کیا ہے جب کہ اسے الگو کے معاملے میں پنچ بنایا گیا تھا۔جمن کو پرانے واقعے کا بدلا لینے کا اچھا موقع تھا لیکن یہاں الگو مظلوم تھا اور جمن پنچایت کی کرسی پر تھا۔ اس نے پنچایت کی کرسی پر بیٹھتے ہی انصاف کی اہمیت کا اندازہ لگا لیا اور بدلہ لینے کے بجائے الگو کے حق میں فیصلہ دیا اور بعد میں الگو سے گلے ملتے ہوئے کہا کہ میں تمہارا جانی دشمن ہوچکا تھا لیکن انصاف کی مسند پر بیٹھنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ کوئی کسی کا دوست یا دشمن نہیں ہوتا اور مجھے یقین ہوگیا کہ پنچ کا حکم اللہ کا حکم ہے۔
مرکزی خیال:    دشمن سے بدلہ لینے کا موقع رکھنے کے باوجود جمن انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر حق بات پر فیصلہ دیتا ہے اور الگو کو انصاف دلا کر خوشی محسوس کرتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ پنچ کا حکم اللہ کا حکم ہے۔
اضافی متن کے حوالے
4    ’’ چاہے کیوں نہیں میرا خون چوس لو۔ کوئی یہ تھوڑے ہی سمجھا جاتا ہے کہ تم خواجہ خضر کی حیات لے کر آئی ہو‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت افسانہ ’’ پنچایت‘‘ سے لی گئی ہے۔جس کے مصنف پریم چند ہیں۔    
تشریح:    اس عبارت میں پریم چند نے جمن کی جانب سے اپنی خالہ کو دھوکہ دینے کی تفصیلات ذکر کی ہیں۔ خالہ کی جائیداد اپنے نام کرنے کے بعد جمن کچھ دن خالہ کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ بعد میں میاں بیوی خالہ کو اپنے گھر رکھنے اور کھانا دینے سے انکار کردیتے ہیں۔ خالہ کی جانب سے جمن سے پیسے طلب کرنے اور الگ پکا کر کھانے کی بات آتی ہے تو جمن خالہ سے کہتا ہے کہ میرا خون چوس لو۔ اب آپ خضر علیہ السلام کی طرح طویل عمر لے کر رہیں تو کون زندگی بھر تمہیں کھانا کھلائے گا۔ اس طرح وہ خالہ کو پیسے دینے سے انکار کردیتا ہے۔
مرکزی خیال:    جائیداد انسان کو اندھا کردیتی ہے اور وہ اپنوں ہی سے منہ موڑ لیتا ہے۔ یہاں جمن بھی اپنی خالہ سے بے وفائی کرتا ہے اور انہیں کھانا دینے سے  انکار کردیتا ہے۔
5۔    سسرے تجھے مرنا تھا تو گھر پر مرتا تونے آدھے راستے میں دانت نکال دئے اب گاڑی کون کھینچے‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت افسانہ ’’ پنچایت‘‘ سے لی گئی ہے۔جس کے مصنف پریم چند ہیں۔    
تشریح:        اس عبارت میں پریم چند نے سمجھو سیٹھ کی جانب سے الگو کی جانب سے خریدے گئے بیل پر ظلم کا ذکر کیا ہے۔ سمجھو الگو سے بیل ادھار لیتا ہے لیکن ایک مہینے تک اس سے خوب کام لیتا ہے چارہ کم دیتا ہے جس کے سبب ایک دن بیل راستے میں ہی دم توڑ دیتا ہے تب سمجھو بیل پر غصہ کرتے ہوئے اس طرح کے خیالات کا اظہارکرتا ہے کہ گھر پر مرنا تھار استے میں دم توڑ کر مجھے کیوں پریشان کرتا ہے۔
مرکزی خیال:    سمجھو بیل پر ظلم کرتا ہے اور اسے کم چارہ دے کر زیادہ کام لیتا ہے جب وہ مر جاتا ہے تب اپنے غصے کا یوں اظہار کرتا ہے۔
6۔    ’’ دوستی کا مرجھایا ہوا درخت پھر ہرا بھرا ہوگیا۔اب وہ بالو کی زمین پر نہیں حق اور انصاف کی زمین پر کھڑا تھا‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت افسانہ ’’ پنچایت‘‘ سے لی گئی ہے۔جس کے مصنف پریم چند ہیں۔    
تشریح:    اس عبارت میں پریم چند نے افسانہ پنچایت کے اختتام پر الگو اور جمن کی دوبارہ دوستی کے جذبات کو بیان کیا ہے۔ پہلے جمن کے خلاف الگو کے فیصلے سے جمن الگو کے بارے میں برے خیالات رکھتا ہے لیکن جب الگو کے لیے جمن کو پنچ بننے کا موقع ملتا ہے تب وہ دشمنی کا بدلہ لینے کے بجائے پنچایت کا لحاظ رکھتے ہوئے الگو کے حق میں فیصلہ دیتا ہے تب دونوںایک دوسرے کی دشمنی بھلا دیتے ہیں اور انصاف کی زمین پر کھڑے ہوکر فخر محسوس کرتے ہیں۔
مرکزی خیال:    افسانہ پنچایت میں انصاف کی اہمیت پنچ کی کرسی کی عظمت بیان کی گئی ہے۔ جمن کو پنچ کی کرسی پر اس کی عظمت کا احساس ہوتا ہے اور وہ مظلوم الگو کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے مسرت محسوس کرتا ہے۔

II    پانچ سطروںمیں جواب لکھیے۔

1 ۔    الگو پنچایت میں کیوں آنا نہیں چاہتے تھے۔ پھر خالہ نے ان کو کس طرح راضی کیا۔
جواب:    پریم چند نے افسانہ ’’ پنچایت ‘‘ میں الگو اور جمن کا قصہ بیان کیا ہے۔ جب جمن خالہ کی جائیداد اپنے نام کرلیتا ہے تو وہ خالہ کی دیکھ بھال میںکمی کردیتا ہے ۔خالہ کی جانب سے الگ رہنے کے لیے جمن سے پیسا طلب کرنے پر وہ انکار کردیتا ہے۔ خالہ گائوں کی پنچایت بلاتی ہے ۔ اور اپنی جانب سے جمن کے دوست الگو کو اپنا پنچ بناتی ہے۔ الگو پنچایت سے دور رہنا چاہتے تھے کیوں کہ ان کے دوست جمن کے خلاف ان کو فیصلہ دینا تھا۔ پنچ کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد وہ انصاف کرتے ہیں اور اپنے دوست جمن کے خلاف فیصلہ دے کر خالہ کو حق دلاتے ہیں۔ ان ساری باتوں کی وجہہ سے وہ پنچایت میں نہیں آنا چاہتے تھے۔
2۔    الگو چودھری نے اپنا بیل کس کو اورکیوں بیچا۔ اور اس نے بیل کی کیا درگت بنائی۔
جواب:    پریم چند نے افسانہ ’’ پنچایت‘‘ میں دو دوستوں جمن اور الگو چودھری کا حال بیان کیا ہے۔ الگو چودھری ایک مرتبہ دو صحت مند بیل خرید کر لاتے ہیں لیکن ایک بیل مرجاتا ہے تو وہ دوسرا بیل سمجھو سیٹھ کو ایک ماہ کے بعد رقم کی ادائیگی کے وعدے پر بیچ دیتے ہیں۔ سمجھو سیٹھ بیل سے خوب کام لیتا ہے ۔ لیکن اسے مناسب چارہ اور غذا نہیں دیتا۔ کام کی زیادتی اور کم غذا ملنے کے سبب بیل راستے میں مرجاتا ہے۔ الگو سیٹھ کی جانب سے بیل کے پیسے طلب کرنے پر وہ انکار کردیتا ہے۔
3۔    سرپنچ بننے کے بعد جمن نے کیا فیصلہ سنایا۔
جواب:    افسانہ ’’ پنچایت‘‘ میں پریم چند نے گائوں کے دو دوستوں جمن اور الگو چودھر ی کا قصہ بیان کیا ہے۔ بیل کے پیسے نہ ملنے پر الگو چودھری بھی سمجھو سیٹھ کے خلاف پنچایت بلاتا ہے۔ اس بار پنچ کی ذمہ داری جمن پر ہوتی ہے جو ایک لحاظ سے الگو کا دشمن بن گیا تھا اسے بدلہ لینے کا اچھا موقع تھا لیکن پنچ کی کرسی پر بیٹھ کر وہ انصاف کے تقاضے کو پورا کرتاہے اور الگو کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے انصاف کی لاج رکھ لیتا ہے۔
4۔    پنچایت ختم ہونے کے بعد شیخ جمن نے الگو چودھری سے کیا کہا لکھیے۔
جواب:     پریم چند نے افسانہ پنچایت کے اختتام پر الگو اور جمن کی دوبارہ دوستی کے جذبات کو بیان کیا ہے۔ پنچایت ختم ہونے کے بعد میں الگو سے گلے ملتے ہوئے کہا کہ میں تمہارا جانی دشمن ہوچکا تھا لیکن انصاف کی مسند پر بیٹھنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ کوئی کسی کا دوست یا دشمن نہیں ہوتا اور مجھے یقین ہوگیا کہ پنچ کا حکم اللہ کا حکم ہے۔ پہلے جمن کے خلاف الگو کے فیصلے سے جمن الگو کے بارے میں برے خیالات رکھتا ہے لیکن جب الگو کے لیے جمن کو پنچ بننے کا موقع ملتا ہے تب وہ دشمنی کا بدلہ لینے کے بجائے پنچایت کا لحاظ رکھتے ہوئے الگو کے حق میں فیصلہ دیتا ہے تب دونوںایک دوسرے کی دشمنی بھلا دیتے ہیں اور انصاف کی زمین پر کھڑے ہوکر فخر محسوس کرتے ہیں۔

III    صرف ایک جملے میںجواب لکھیے۔

    1۔    جمن کی خالہ نے پنچایت کیوں بٹھائی۔
جواب:        جمن کی خالہ نے پنچایت اس لیے بٹھائی کے جمن نے ان سے جائیداد حاصل کرلینے کے بعد ان کی پرورش سے انکار کردیا تھا۔
    2۔    پنچ بننے کے بعد الگو چودھری نے جمن سے کیا کہا۔
جواب:        پنچ بننے کے بعد الگو نے اپنے دوست جمن سے کہا کہ زندگی میں آپ اور میں اچھے دوست رہے ہیں لیکن یہ پنچ کا معاملہ ہے اس وقت نہ تم ہمارے دوست ہو نہ ہم تمہارے دوست۔ یہ انصاف اور ایمان کا معاملہ ہے۔
    3۔    جمن نے پنچوں کے سامنے کیا بیان دیا۔
جواب:        جمن نے پنچوں سے کہا کہ اس کی زراعت ٹھیک نہیں چل رہی ہے اور وہ خالہ کو رقم نہیں دے سکتا اور نہ ہی زندگی بھر ان کی دیکھ بھال کرسکتاہے۔
    4۔    الگو نے کیا فیصلہ سنایا۔
جواب:        الگو نے جمن کے خلاف فیصلہ سنایا اور کہا کہ تمہاری زراعت ٹھیک ہے۔ تم نے خالہ کی جائیداد اپنے نام کرلی ہے ان کی دیکھ بھال کرنا چاہئے اگر نہیں کروگے تو تمہارا ہبہ نامہ منسوخ سمجھا جائے گا۔
    5۔    اپنے فیصلے کا جمن پر کیا اثراہوا۔
جواب:        الگو کی جانب سے جمن کے خلاف فیصلہ سنتے ہی وہ غصے میں آگیا اور کہا کہ دوستی کا اچھا صلہ دیا کہ دوست کی گردن پر ہی چھری چلا دی۔

IV    پندرہ سطروں میں جواب لکھیے۔

    1۔ پنچایت افسانے کو اپنے الفاظ میں لکھیے۔
جواب:    (جواب کے لیے افسانے کا خلاصہ پڑھئیے)
    2۔    ان پر نوٹ لکھیے۔    1۔الگو چودھری     2۔    جمن
جواب:    1۔الگو چودھری
    پریم چند نے افسانہ’’ پنچایت‘‘ میں دو دوستوں الگو چودھری اور جمن کا قصہ بیان کیا ہے۔ دونوں گہرے دوست تھے ۔بچپن میں الگونے جمن کے والد سے زندگی کا سبق سیکھا تھا۔ جب وہ بڑے ہوئے تو ایک مرتبہ جمن کی خالہ کی جانب سے جمن کے خلاف پنچایت بلائی گئی۔ پنچایت میںالگو کوجمن کے خلاف پنچ بنایا گیا۔ الگو نے پنچ کی کرسی کا احترام کرتے ہوئے جمن کے خلاف فیصلہ دیا۔ جس پر جمن کو بہت غصہ آیا۔ اور وہ الگو سے بدلہ لینے کے لیے موقع کی تلاش میں رہنے لگا۔ بعد میں جب الگو نے سمجھو سیٹھ کو اپنا بیل بیچا اور اس نے وعدے کے مطابق بیل کے پیسے دینے سے انکار کردیا تو الگو نے پنچایت بلائی جس میں پنچ جمن تھا۔ اس موقع پر جمن پنچ کا احترام کرتا ہے اورالگو سے بدلہ لینے کے بجائے اس کے حق میں فیصلہ دیتا ہے۔
     2۔    جمن    افسانہ پنچایت میں جمن الگو کا دوست ہے وہ بھی اس کا بچپن کا ساتھی ہے گائوں میں اس کی بڑی عزت تھی۔ اس نے خالہ سے جائیداد اپنے نام پر کرالی اور ان کی پرورش میں کوتاہی کرنے لگا۔خالہ نے جمن کے خلاف پنچایت بٹھائی۔ اس کے دوست الگو کو پنچ بنایا۔ دوست ہونے کے باوجود الگو نے جمن کے خلاف اور خالہ کی تائید میں فیصلہ دیا اور کہا کہ پنچ کا حکم خدا کا حکم ہوتا ہے اس میں دوستی دشمنی نہیں چلتی۔ جمن بھی بعد میں پنچ بنتا ہے اور الگو کی تائید میں فیصلہ دے کر پنچ کی کرسی کا احترام کرتا ہے ۔ بعد میں دونوں کی دوستی شروع ہوجاتی ہے اور وہ پنچایت کے احترام سے خوش رہتے ہیں۔
        3۔    منشی پریم چند کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں۔
جواب:        (جواب کے لیے مصنف کا تعارف دیکھئے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے