غزل مومن خان مومنؔ
مومن خان مومنؔ(1800-1851) اردو غزل کے مشہور شاعر گزرے ہیں ۔ دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام حکیم غلام نبی خاں تھا۔ جو حکیم اور عالم دین تھے۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔ ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ مومن نے اس دور کے مشہور عالم شاہ عبدالقادر سے عربی اور اپنے والد سے طب کی تعلیم حاصل کی۔
اس کے علاوہ ریاضی‘علم نجوم‘موسیقی اور شطرنج میں مہارت رکھتے تھے۔دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ اس لیے کبھی کسی امیر یا وزیر کی ملازمت یا مصاحبت نہیں کی یہی ان کے کردار کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسوخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔ مومن کی یادگار ایک دیوان اور چھ مثنویاں ہیں۔ 1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔اور ان کا مدفن دلی دروازے کے باہر حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی رحمت اللہ علیہ کی درگاہ کے پاس ہے۔
مومن غالبؔ کے ہم عصر تھے۔ اور غالب جیسے انفرادیت پسند شاعر مومنؔ کے بڑے قدردان تھے۔مومنؔ نے غزلوں میں اس دور کے روایتی رنگ کو پیش کیا۔انہیں زبان و بیان پر عبور تھا۔رعایت لفظی اور ابہام سے انہوں نے شاعری میں رنگ بھرا۔ اردو غزل میں مومنؔ اہم مقام پر فائز رہے۔
اشعار کی تشریح
شعر 1۔ اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا رنج راحت فزا نہیں ہوتا
حوالہ: یہ شعر مومنؔ کی غزل سے لیا گیا ہے۔ یہ غزل کا مطلع ہے۔
تشریح: غزل کے مطلع میں مومنؔاپنے عشق کے جذبے کو واضح کرتے ہیں کہ وہ اپنے محبوب حقیقی یعنی خدا کو دل و جان سے چاہتے ہیں۔وہ اپنے محبوب کی نظر التفات چاہتے ہیں کہ خدا ان کی طرف دیکھے ان کی مشکلات دور کرے لیکن دعائیں مانگنے اور محبوب کی نظر کرم چاہنے کے باوجود خدا اس عاشق بندے کی طرف نہیں دیکھتا اس لئے اس عاشق بندے کی مشکلات میں کمی واقع نہیں ہوتی اور اس کی راحتوں میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اپنی اس کیفیت کو شاعر مومن نے غزل کے مطلع میں پیش کیا ہے۔ انسان زندگی میں بھی کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے کسی کی مدد کسی کی دوستی کسی کا ساتھ حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن جب اس کی پسند اسے حاصل نہ ہوتو اس کے غم میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ انسان کو اگر چاہت کی چیز مل جائے تو اس کی راحتیں بڑھ جاتی ہیں۔ لیکن دنیا کا یہ اصول ہے کہ یہاں اپنی مرضی کی ہر چیز نہیں ملتی اس لئے انسان کی بے چینی برقرار رہتی ہے۔
مرکزی خیال: عاشق بندہ اپنے محبوب حقیقی خدا کی نظر کرم کا طالب ہے۔لیکن بندے کی طرف خدا کی رحمت متوجہ نہیں ہے اس لئے عاشق بندے کی بے چینی بڑھی ہوئی ہے اور اس کی راحتیں نہیں بڑھ رہی ہیں۔ دنیاوی زندگی میں بندے کی خواہشوں کی تکمیل نہ ہوتو اس طرح کی کیفیت رہتی ہے۔
شعر2: تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
حوالہ: یہ شعر مومنؔ کی غزل سے لیا گیا ہے۔
تشریح: غزل کے اس شعر میں مومنؔ نے اپنے عشق کی کیفیت بیان کی ہے۔ ایک سچا عاشق بندہ اپنے محبوب حقیقی خدا سے سوال کرتا ہے کہ اے خدا اگر تو میرا ہوجاتا تو دنیا میں سب کچھ میرا ہوجاتا۔ یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسان کو زندگی میں طرح طرح کی ضروریات پیش آتی ہیں۔ اور ہماری ہر طرح کی ضروریات کی تکمیل ایک رب اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کرتا ہے۔ ہم اپنی دنیاوی ضروریات کی تکمیل کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں لوگوں کے آگے دست سوال بڑھاتے ہیں لیکن ہماری ضروریات کی تکمیل نہیں ہوتی۔ اگر ہم خدا کے پسندیدہ بندے بن جائیں اس کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی گزارنے لگیں اور خدا ہم سے راضی ہوجائے تو ہماری دنیا و آخرت کی ہر ضرورت کی تکمیل ہوجائے۔ کہا جاتا ہے کہ جسے خدا مل جائے اسے سب کچھ مل جائے۔ اس لئے شاعر کہتا ہے کہ میرا محبوب میرا نہیں ہوا اگر میرا ہوجاتا تو میری دنیا سنور جاتی تھی۔ دنیاوی حالات میں بھی انسان کسی کی مدد چاہتا ہے اگر مدد مل جائے تو سب کام بن جاتے ہیں لیکن مدد نہ ملنے پر شاعر شکوہ کرتا ہے۔یہ دنیا حقیقی راحت کی جگہ نہیں ہے اس لئے انسان کتنی بھی خواہشات کی تکمیل ہو پھر بھی کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کا طلب گار رہتا ہے۔
مرکزی خیال: شاعر کو اپنے محبوب حقیقی خدا کی مدد کی ضرورت تھی۔ یہ مدد نہ ملنے پر اسے شکوہ ہے کہ اگر مدد مل جاتی تو اس کے دنیا کہ سب کام بن جاتے۔
شعر3: اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر دل کسی کام کا نہیں ہوتا
حوالہ: یہ شعر مومنؔ کی غزل سے لیا گیا ہے۔
تشریح: غزل کے اس شعر میں مومنؔ کہتے ہیں کہ میرا محبوب کیا جانے کہ جب اس کا سب کچھ لٹ گیا ہے تو اب جو دل باقی رہ گیا ہے وہ کسی کام کا نہیں رہ گیا ہے۔ انسان کو خوش رہنے کے لئے ظاہری طور پر زندگی کی ضروریات میسر ہونا لازمی ہیں۔ اگر زندگی کا سکھ چین لٹ گیا تو پھر دل میں خوشی باقی نہیں رہتی۔ انسان سوچتا ہے کہ خدا نے اس سے سب کچھ چھین لیا اب ایک دل رہ گیا ہے جو غموں سے ڈوبا ہوا ہے اور وہ خوشی نہ ہونے کے سبب کسی کام کا نہیں رہا۔
مرکزی خیال: انسان کا سب کچھ لٹ گیا۔ چھین لیا گیا ۔ صرف دل باقی رہ گیا ہے ۔ جو خوشی نہ ہونے کے سبب کسی کام کا نہیں رہا۔
شعر4: امتحاں کیجئے مرا جب تک شوق زور آزما نہیں ہوتا
حوالہ: یہ شعر مومنؔ کی غزل سے لیا گیا ہے۔
تشریح: شاعر مومنؔ غزل کے اس شعر میں اپنے محبوب حقیقی خدا سے کہتے ہیں کہ وہ اس عاشق بندے کا امتحان لے ۔تاکہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہوکر دکھا سکے کہ وہ اپنے خدا کو کس حد تک چاہتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں آپ کو حاصل کرنے کے لئے طاقت یا زور آزمائی کرنا نہیں چاہتا۔ یہ شوق اور چاہت کا معاملہ ہے۔ اور میں اپنے محبوب کی طرف سے عائد امتحانات سے گزر کر اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ انسان ذبردستی خوشیاں حاصل کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ امتحانات سے گزر کر کامیابی حاصل کرتے ہوئے چین و راحت پانا چاہتا ہے۔
مرکزی خیال:شاعر اپنے محبوب کی توجہ حاصل کرنے کے لئے زور آزمائی یا ذبردستی کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ امتحانات سے گزر کر اپنے محبوب کی توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
شعر5: تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حوالہ: یہ شعر مومنؔ کی غزل سے لیا گیا ہے۔
تشریح: یہ شعر مومنؔ کا مقبول ترین شعر ہے جس کے بارے میں غالبؔ جیسے نامور شاعر نے ان سے کہا تھا کہ مومنؔ اگر یہ شعر ان کے نام کردیں تو وہ اپنا سارا شعری دیوان ان کے نام کردیں گے۔ عشق حقیقی میں ڈوبا شاعر اپنے محبوب حقیقی خدا سے کہتا ہے کہ اس کی یاد ہی میرے دل میں بسی رہتی ہے اور کسی کی یاد دل میں نہیں رہتی۔ انسان جب مشکلات اور پریشانیوں میں گھرا رہے تو اپنی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے دنیاوی سہولتوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ کس کی مدد سے اس کی پریشانی دور ہو۔ لیکن سب دنیاوی سہارے ساتھ چھوڑ جائیں تب خدا کی یاد ہی انسان کے دل میں بسی رہتی ہے۔اورخدا کے سچے عاشق بندے ہر حال میں اپنے خدا کی یاد دل میں بسائے رکھتے ہیں اوردنیاوی اسباب سے اپنے دل و دماغ کو دور کھتے ہیں۔ محبوب بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کا عاشق بندہ صرف اس کی طرف ہی متوجہ ہوتا ہے یا دوسروں سے بھی مدد کا طلب گار رہتا ہے۔ اس شعر سے شاعر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دن ہو یا رات ہر حال میں ہمیں اپنے خدائے حقیقی کی یاد ہی دل میں بسائے رکھنا چاہئے اور ہمیشہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے اس سے ہی مدد طلب کرنا چاہئے۔
مرکزی خیال:خدا کا سچا عاشق بندہ ہمیشہ اپنے دل میں خدا کی یاد بسائے رکھتا ہے اور خدا کے علاوہ کسی اور کی یاد نہیں رکھتا۔جب انسان کو غم کی حالت میں سب کوئی چھوڑ کر چلے جائیں تب خدا ہی کے سہارے وہ سکون حاصل کرتا ہے۔
شعر6: حال ِدل یار کو لکھوں کیوں کر ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
حوالہ: یہ شعر مومنؔ کی غزل سے لیا گیا ہے۔
تشریح: شاعر اپنے محبوب کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے اور اسے اپنے عشق کی کیفیت لکھ کر بتانا چاہتا ہے لیکن عشق کی کیفیت اس قدر گہری ہے کہ اس کا ہاتھ بھی اس کے دل کے طابع ہے اور وہ اپنی کیفیت بھی لکھنے سے معذور ہے۔ عشق حقیقی کی طرف اشارہ ہے کہ جو عاشق بندے اپنے خدائے حقیقی کو دل و جان سے چاہتے ہیں وہ ظاہری طور پر اپنے عشق کی کیفیت بیان نہیں کرسکتے۔ان کے اور خدا کے درمیان یہ معاملہ ہوتا ہے ۔ انسان اپنے عمل سے یہ ظاہر کرے کہ وہ کس قدر سچا عاشق بندہ ہے۔ لکھ کر بیان کرنے سے عشق کی کیفیت بھی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ عمل سے ظاہر ہوتی ہے ۔ اور سچا عاشق بندہ لکھنے کے قابل بھی نہیں ہے وہ تو سر تا پا عشق میں ڈوبا ہوا ہے۔جن لوگوں کو کسی کام کی دھن سوار ہوجاتی ہے وہ کام میں لگ جاتے ہیں اور کام کرکے دکھاتے ہیں بولنے سے کام سمجھ میں نہیں آتا اس لئے خدا کے سچے عاشق بندوں کو چاہئے کہ وہ اپنے خدا اور رسول سے سچے عشق کا عملی اظہار کریں اور زبانی عشق کے دعوے نہ کریں۔
مرکزی خیال: شاعر اپنے حقیقی عشق کا اظہار کرتے ہوئے خدا سے کہتا ہے کہ میں اپنے عشق کی کیفیت بیان کرنے کے قابل نہیں ہوں کیوں کہ میرا ہاتھ ہی نہیں میرا سارا جسم بھی عشق کی کیفیت میں ڈوبا ہوا ہے۔
شعر7: کیوں سنے عرضِ مضطر اے مومنؔ صنم آخر خدا نہیں ہوتا
حوالہ: یہ شعر مومنؔ کی غزل سے لیا گیا ہے۔ یہ غزل کا مقطع ہے۔
تشریح : شاعر مومنؔ غزل کے مقطع میں کہتے ہیں کہ وہ دنیاوی بتوں سے اپنی فریاد کرکے دیکھ چکے ہیں لیکن جو اپنی مدد آپ نہیں کرسکتا وہ کیا میری مدد کرسکے گا۔ کیوں کہ پتھر کے بت حقیقی خدا نہیں ہوسکتے۔ انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے دنیاوی اسباب پر بھروسہ کرتا ہے لیکن دنیاوی اسباب بھی خدا کی مرضی کے محتاج ہیں اس لیے شاعر کو بالآخر احساس ہوتا ہے کہ اس بے چین انسان کی فریاد خدا کے علاوہ دنیا کا کوئی محبوب کوئی سبب سن نہیں سکتا۔ اس شعر کے ذریعے مومنؔ اس اٹل حقیقیت کی طرف بھی اشارہ کردیتے ہیں کہ انسان کو اپنی تمام ضروریات کی تکمیل کے لئے خدا سے رجوع ہونا چاہئے دنیاوی سہارے فانی ہیں۔ ان سے کچھ نہیں ہوسکتا۔
مرکزی خیالـ : انسان کو اپنی پریشانیوں کے حل کے لئے حقیقی رب ذوالجلال سے رجوع ہونا چاہئے۔ دنیاوی اصنام اور طاقتیں انسان کو کچھ فائدہ نہیں پہونچا سکتیں۔
سوالات
I متن کے حوالے سے درجِ ذیل اشعار کی تشریح کیجئے۔
1 تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
جواب: شعر نمبر 2کی تشریح دیکھیں۔
2 اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا رنج راحت فزا نہیں ہوتا
جواب: شعر نمبر 1کی تشریح دیکھیں۔
3 تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
جواب: شعر نمبر5کی تشریح دیکھیں۔
II ایک لفظ یا جملہ میں جواب لکھئے۔
1 مومن کا اصل نام کیا ہے؟
جواب: مومن کا اصل نام مومن خان مومنؔ تھا۔
2 مومن کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟
جواب: مومن کا سنہ پیدائش1800ء ہے۔
3 مومن کا انتقال کس سنہ میں ہوا؟
جواب: مومن کا انتقال1851ء میں ہوا۔
4 مومن کا وہ کونسا شعر ہے جس پر غالب اپنا دیوان انہیں دینے کو تیار تھے؟
جواب: مومن کا وہ شعر جس پر غالب اپنا دیوان ان کے نام کرنے تیار تھے وہ اس طرح ہے۔
؎ تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
5 مومن کا مقام پیدائش کیا تھا۔
جواب: مومن دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔
III پندرہ سطروں میں جواب لکھیے۔
1 مومن خان مومنؔ کے حالات زندگی کا جائزہ لیجئے۔
2 مومن کی شاعرانہ خصوصیات بیان کیجئے۔
جواب: مومن خان مومنؔ(1800-1851) اردو غزل کے مشہور شاعر گزرے ہیں ۔ کوچہ چیلان دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام حکیم غلام نبی خاں تھا۔ جو حکیم اور عالم دین تھے۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔ ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ مومن نے اس دور کے مشہور عالم شاہ عبدالقادر سے عربی اور اپنے والد سے طب کی تعلیم حاصل کی۔اس کے علاوہ ریاضی‘علم نجوم‘موسیقی اور شطرنج میں مہارت رکھتے تھے۔دلی سے پانچ مرتبہ باہر نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امراوء اور روساء کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ اس لیے کبھی کسی امیر یا وزیر کی ملازمت یا مصاحبت نہیں کی یہی ان کے کردار کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔ مومن غالبؔ کے ہم عصر تھے۔ دبستان دلی سے تعلق تھا۔ غالب جیسے انفرادیت پسند شاعر مومنؔ کے بڑے قدردان تھے۔ مومن کا ایک شعر ہے:
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
غالبؔ کو یہ شعر اتنا پسند آیا کہ وہ اس کے بدلے اپنا پورا دیوان دینے پر راضی ہوگئے۔ اس شعر کی ساری خوبصورتی لفظ ’’گویا‘‘ میں پوشیدہ ہے۔ بڑا ذومعنی شعر ہے۔ گویا بہ معنی گفتگو بھی اور ’’یعنی‘‘ کے معنوں میں بھی۔ مومنؔ نے غزلوں میں اس دور کے روایتی رنگ کو پیش کیا۔انہیں زبان و بیان پر عبور تھا۔رعایت لفظی اور ابہام سے انہوں نے شاعری میں رنگ بھرا۔ اردو غزل میں مومنؔ اہم مقام پر فائز رہے۔
طبابت اور علم نجوم میں مہارت رکھتے تھے۔ ستاروں کی چال جانتے تھے۔
ان نصیبوں پر کیا اختر شناس آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا
مومن ایک باکمال شاعر تھے۔ وہ حسن و عشق کے معاملات سے اچھی طرح واقف تھے۔ان کا شباب زاہد خشک کی طرح بے لذت نہیں تھا۔بلکہ ان کی محبت ایک رنگیں اور اثر انگیز داستان ہے۔ ان کی شاعری کا عاشق حقیقی زندگی کا فرد نظر آتا ہے، جس نے بھرپور زندگی گزاری ہو۔ یعنی وجہ ہے کہ ان کے ہاں میر تقی میر جیسی انفعالیت پسندی اور غالب جیسی تجریدیت کا فقدان ہے۔مومن کے ہم عصروں میں غالب اور ذوق کو نمایاں مقام حاصل ہے
لیکن مومن اپنے کلام کی انفرادیت کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔وہ سادگی اور پر کاری سے شعر کہنے پر قادر تھے اور ان کے زمانے میں ہی ان کی غزل گوئی کی شہرت دور دور تک پہنچی ہوئی تھی۔ مومن طبیعت سے غیور اور انا پرست انسان تھے۔ انہوں نے اپنے معاصرین ذوق اور غالب کی طرح کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا، اس لیے ان کی شاعری میں بھی خود داری اور خود اعتمادی کا پہلو نمایاں ہیں۔مومن کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے یہاں سادگی کے ساتھ ساتھ پر کاری ہے، جذبات نگاری ہے، کیوں کہ جذبات کو مناسب پیرائے میں ڈھالنے کے فن میں وہ یکتا تھے۔ مومن کی شاعری میں خود کلامی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔مومن اپنے دور کے شاید واحد شاعر ہیں جنہوں نے امرا و روسا کی شان میں قصیدوں کے گلدستے نہیں سجائے۔ وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز تھے۔ وہ پاک باز انسان تھے۔
دل کے صاف تھے، کسی سے وہ عداوت نہیں رکھتے تھے اسی لیے کسی کے خلاف ہجو بھی نہیں لکھی انہیں ہجوگوئی سے شدید نفرت تھی۔مومن میں خودداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ خود پسندی بھی تھی۔ اسی لیے انہوں نے اپنے معاصرین میں کسی شاعر کو تسلیم نہیں کیا۔ جب وہ گلستانِ سعد ی کو ایک معمولی کتاب کہتے تھے تب بھلا وہ غالب اور ذوق کو کیوں کر خاطر میں لاتے ان کے یہاں متعدد ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں خود آرائی اور خود ستائی ہے۔مومن غزل کے مقطعے خوب اہتمام سے کہتے تھے۔ تخلص میں اپنے نام کی رعایت سے مضمون پیدا کرنا ان کا خاص رنگ ہے جو کسی دوسرے شاعر کے یہاں کم نظر آتا ہے:
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومن آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہو ں گے
یہ بات بھی درست ہے کہ اپنے معاصرین میں مومن نے غزل گوئی میں ایک نئی طرز نکالی تھی اور وہ اس طرز کے موجد بھی تھے اور خاتم بھی۔ یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود مومن کے کلام پر گرد نہیں جم سکی ہے۔
مومن نے اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔ مومن کی یادگار ایک دیوان اور چھ مثنویاں ہیں۔
مومن کے کچھ مشہور اشعار اس طرح ہیں۔
اس غیر ناہید کی ہر تان ہے دیپک شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومن آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
0 تبصرے