قواعد کی تعریف
قواعد قاعدے کی جمع ہے۔ کسی بھی زبان کو اس کے اصول و ضوابط کے مطابق استعمال کرنے کے کچھ قاعدے ہوتے ہیں۔ اگر قواعد کی رعایت کی جائے تو زبان معیاری ہوگی ورنہ زبان کا معیار بگڑ جائے گا۔ اردو قواعد میں اسم۔فعل۔صفت۔ضمیر۔علم بیان اور علم عروض سے بحث کی جاتی ہے۔
1۔ اسم
اسم: کسی بھی نام کو اسم کہتے ہیں۔کسی بھی جاندار۔چیز یا جگہ کے نام کو اسم کہا جاتا ہے۔جیسے احمد۔ فون ۔مدرسہ وغیرہ
اسم کی دوقسمیں ہیں ۔اسم عام ۔اسم خاص
اسم خاص: کسی بھی خاص جاندار۔جگہ یا چیز کے نام کو اسم خاص کہا جاتا ہے ۔جیسے اظہر الدین۔تاج محل۔سامسنگ فون وغیرہ
اسم خاص کی پانچ قسمیں ہیں۔ 1) عَلَم 2) عرف 3) لقب 4) خطاب 5) تخلص
1) عَلَم: وہ اصلی نام جو کسی خاص شخص یا چیز کے وجود میں آنے پر رکھا جاتا ہے۔ جیسے ثانیہ مرزا۔حیدرآباد۔رینالڈز پن وغیرہ
2) عرف: وہ مختصر نام جو محبت یا حقارت سے پکارا جائے ۔ جیسے چنو ۔منو۔گورے۔کالے وغیرہ
3) لقب : وہ نام جو کسی خاص صفت یا خاصیت کی وجہہ سے مشہور ہو جیسے بابائے اردو۔مہاتما۔کلیم اللہ وغیرہ
4) خطاب : وہ نام جو حکومت یا بادشاہ کی جانب سے کسی کارنامے پر دیا جائے جیسے شمس العلماء۔ بھارت رتن پدم شری سر وغیرہ
5) تخلص: وہ نام جو شاعر اپنے کلام میں استعمال کرتا ہے اسے تخلص کہتے ہیں۔ جیسے اقبالؔ۔غالبؔ میرؔ وغیرہ۔تخلص کے لیے یہ نشانی ( ؔ) استعمال کی جاتی ہے جسے بط کہتے ہیں۔
اہل عرب اسم خاص کی ایک قسم کنیت بھی استعمال کرتے ہیں جو باپ کی نسبت ظاہر کرتی ہے جیسے ابو طالب۔ ابن مریم ۔ابوالحسن
اسم عام: کسی بھی عام نام کو اسم عام کہتے ہیں۔ جسے لڑکا۔کتاب۔ مدرسہ۔بازار وغیرہ
اسم عام کی پانچ قسمیں ہیں۔1) اسم ذات 2 ) اسم کیفیت 3) اسم آلہ 4 ) اسم ظرف 5 ) اسم جمع
1) اسم ذات: وہ اسم عام ہے جو ایک چیز کو اس کے کسی وصف کی بناء پر دوسری چیز سے الگ کرے۔ ہر جاندرا اور شئے کے ذاتی نام کو اسم ذات کہتے ہیں۔
جیسے آدمی۔جانور۔اونٹ۔گھوڑا۔خرگوش ۔درخت وغیرہ
2 ) اسم کیفیت : وہ اسم ہے جو کسی اسم کی کیفیت یا حقیقت کو بتائے۔جیسے خوشی۔غم۔تاریکی۔روشنی۔سردی ۔گرمی۔ بہادری ۔بزدلی وغیرہ۔
3) اسم آلہ: وہ اسم جو کسی آلہ ۔اوزار یا ہتھیار کے نام کو ظاہر کرے جیسے۔چھری۔قینچی۔ہتھوڑی وغیرہ
4 ) اسم ظرف: وہ اسم جو مقام۔وقت اور زمانہ کو بتائے۔اگر وقت اور زمانے کو بتائے تو اسم ظرف زماں اور مقام کو بتائے تو اسم ظرف مکاں کہلاتا ہے جیسے مسجد ۔مندر۔مدرسہ۔دن ۔رات۔صبح۔شام وغیرہ
5 ) اسم جمع: وہ اسم ہے جو لفظ کے اعتبار سے واحد ہے لیکن معنوی اعتبار سے کسی مجموعے کو ظاہر کرے جیسے۔قوم۔جماعت۔قطار۔جھنڈ۔ انجمن وغیرہ
I مختصر ترین سوالات
1۔ مندرجہ ذیل میں اسم عام یا اسم خاص کی شناخت کیجئے۔
بابائے اردو۔قینچی۔دیوار۔شادؔ۔درخت۔انجمن۔آم کا درخت
جواب: اسم عام
قینچی۔دیوار۔درخت۔انجمن
اسم خاص
بابائے اردو۔شادؔ۔آم کا درخت
2۔ مندرجہ ذیل مثالوں میں اسم خاص کی نشاندہی کیجئے۔
کلیم اللہ۔غالبؔ۔خالد۔بھارت۔منو
جواب: کلیم اللہ(لقب)۔غالبؔ (تخلص) ۔خالد( علم)۔بھارت رتن( خطاب)منو( عرف)
3۔ مندرجہ ذیل مثالوں میں اسم عام کی قسموں کی نشاندہی کیجئے۔
جماعت۔روشنی۔قلم۔مدرسہ۔قلم تراش
جواب: جماعت (اسم جمع) ۔روشنی(اسم کیفیت)۔قلم( اسم آلہ)۔مدرسہ( ظرف مکاں۔قلم تراش(اسم آلہ)۔
II ایک جملے میں جواب دیجئے۔
1۔ اسم کی تعریف کیجئے اور مثال دیجئے۔
جواب: کسی بھی نام کو اسم کہتے ہیں۔کسی بھی جاندار۔چیز یا جگہ کے نام کو اسم کہا جاتا ہے۔جیسے احمد۔ فون ۔مدرسہ وغیرہ
اسم کی دوقسمیں ہیں ۔اسم عام ۔اسم خاص
2۔ اسم خاص سے کیا مراد ہے مثال دیجئے۔
جواب: کسی بھی خاص جاندار۔جگہ یا چیز کے نام کو اسم خاص کہا جاتا ہے ۔جیسے اظہر الدین۔تاج محل۔سامسنگ فون وغیرہ
اسم خاص کی پانچ قسمیں ہیں۔ 1) عَلَم 2) عرف 3) لقب 4) خطاب 5) تخلص۔
3۔ اسم عام کسے کہتے ہیں۔مثال دیجئے۔
جواب: کسی بھی عام نام کو اسم عام کہتے ہیں۔ جسے لڑکا۔کتاب۔ مدرسہ۔بازار وغیرہ
اسم عام کی پانچ قسمیں ہیں۔1) اسم ذات 2 ) اسم کیفیت 3) اسم آلہ 4 ) اسم ظرف 5 ) اسم جمع
4۔ تخلص کی تعریف معہ مثال لکھئے۔
جواب: وہ نام جو شاعر اپنے کلام میں استعمال کرتا ہے اسے تخلص کہتے ہیں۔ جیسے اقبالؔ۔غالبؔ میرؔ وغیرہ
5۔ اسم ِ ظرف کی تعریف کیجئے۔
جواب: وہ اسم جو مقام۔وقت اور زمانہ کو بتائے۔اگر وقت اور زمانے کو بتائے تو اسم ظرف زماں اور مقام کو بتائے تو اسم ظرف مکاں کہلاتا ہے جیسے مسجد ۔مندر۔مدرسہ۔دن ۔رات۔صبح۔شام وغیرہ۔
III صحیح جوڑ لگائیے۔
1۔ لقب ( ھ ) ( الف ) جگرؔ ؔ
2۔ تخلص ( الف ) ( ب ) عائشہ
3۔ عرف ( ج ) ( ج ) فخرو
4۔ علم ( ب ) ( د ) فصاحت جنگ
5۔ خطاب ( د ) ( ھ ) بابائے میزائل
6۔ اسم ظرف ( ت ) ( و ) گھوڑا
7۔ اسم جمع ( ت ) ( ز ) بندوق
8۔ (اسم آلہ) ( ز ) ( ح ) گھوڑا
9۔ اسم کیفیت ( ی ) ( ت ) مدرسہ
10۔ اسم ذات ( ح ) ( ی ) گرمی
2 ضمیر اور صفت
اسم کے بجائے جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے اسے ضمیر کہتے ہیں۔
ضمیر: ضمیر وہ لفظ ہے جو اسم کی جگہ پر بولا جاتا ہے جیسے وہ ۔تم ۔میں وغیرہ
ضمیر کی اقسام: ضمیر کی پانچ اقسام ہیں 1) ضمیر شخصی 2) ضمیر اشارہ 3) ضمیر موصولہ 4) ضمیر استفہامیہ 5) ضمیر تنکیر
1) ضمیر شخصی : وہ ضمیر جو کسی شخص کے نام کی جگہ پر استعمال ہو۔ جیسے تم۔آپ۔ میں ۔ان ۔ہمیں۔تمہیں۔ وغیرہ
ان ضمیروں میں ہم۔میرا ۔ہمارا۔کو ضمیر متکلم کہتے ہیں۔
تم۔آپ۔تمہارا۔تیرا کو ضمیر مخاطب یا ضمیر حاضر کہتے ہیں۔
وہ۔یہ۔ان کا۔انہوں وغیرہ کو ضمیر غائب کہتے ہیں۔
2) ضمیر اشارہ: وہ ضمیر ہے جو اشارہ(قریب یا دور) کے لیے استعمال ہوتا ہو۔جیسے یہ میرا قلم ہے۔ وہ تمہاری کتاب ہے۔
3) ضمیر موصولہ: وہ ضمیر جو کسی لفظ کی وضاحت یا جملوں کو جوڑنے کے لیے استعمال ہو جیسے وہ کتاب جو گم ہوگئی تھی مل گئی۔اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔
4) ضمیر استفہامیہ : وہ ضمیر ہے جو کسی سوال کے پوچھنے کے لیے استعمال ہو۔جیسے تم کون ہو؟۔تمہارا نام کیا ہے؟۔
5) ضمیر تنکیر: وہ ضمیر ہے جو غیر متعین شخص کے لیے استعمال ہو۔جیسے کوئی میری مدد کرو۔کھانے کے لیے کچھ لائو۔
صفت
صفت: صفت وہ لفظ ہے جو اسم کی کیفیت یا خصوصیت کو ظاہر کرے۔جیسے رشید محنتی لڑکا ہے۔ احمد نیک لڑکا ہے وغیرہ۔
صفت کی اقسام: صفت کی پانچ قسمیں ہیں۔ 1) صفت ذاتی 2) صفت نسبتی 3) صفت عددی 4) صفت مقداری 5) صفت ضمیری۔
1) صفت ذاتی: وہ صفت ہے جو کسی اسم کی اندرونی یا بیرونی حالت و کیفیت کو ظاہر کرے۔ جیسے آم میٹھا ہے۔موسم گرم ہے۔تازہ کھانا کھائو وغیرہ۔ ان مثالوں میں میٹھا۔گرم۔تازہ صفت ذاتی ہے جو اسم کی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے۔
2) صفت نسبتی : وہ صفت ہے جو کسی اسم کے آخر میں ی بڑھا کر نسبت کو ظاہر کرتی ہے جیسے حیدرآبادی بریانی۔ایرانی چائے۔جنگلی جانور وغیرہ
3) صفت عددی: وہ صفت ہے جو اسم کی تعداد کو ظاہر کرے جیسے دو دوست۔تیس روزے۔ پانچ نمازیں وغیرہ۔
4) صفت مقداری: وہ صفت ہے جو اسم کی مقدار یعنی وزن یا ناپ تول کو ظاہر کرے۔جیسے ایک کلو تیل۔ایک لیٹر دودھ۔ دس فٹ کی دیوار وغیرہ۔
5) صفت ضمیری : وہ صفت ہے جو ضمیر کا کام کرتی ہے جیسے تم سا کوئی نہیں۔ایسی بات میں نے نہیں کہی۔
I مختصر ترین سوالات
1۔ مندرجہ ذیل جملوں میں ضمیر کی قسموں کی نشاندہی کیجئے۔
جملے ضمیر کی قسم
الف) آپ نے فرمایا۔ (شخصی )
ب) تم کہاں جارہے ہو۔ (استفہامیہ)
ج) کسی کو بلائو۔ (تنکیر )
د) اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔ (موصولہ )
ھ) وہ کرسی خالی ہے۔ (غائب )
2۔ مندرجہ ذیل مصرعوں میں ضمیر کی نشاندہی کیجیے اور قوسین من لکھیے۔
الف) وفا کیسی؟کہاں کا عشق‘جب سرپھوڑنا ٹہرا (استفہامیہ)
ب) آپ کی یاد آتی رہی رات بھر (شخصی )
ج) کوئی دیوانہ گلیوں میں پھرتا رہا (تنکیر )
د) کوئی آواز آتی رہی رات بھر (تنکیر )
ھ) وہ جان جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی (موصولہ )
3۔ مندرجہ ذیل مثالوں میں صفت کی اقسام کی نشان دہی کیجئے۔
مثال صفت کی قسم
1۔ سمجھ دار لڑکا صفت ذاتی
2۔ مکی سورت نسبتی
3۔ دو گز زمیں مقداری
4۔ انار کے چودہ دانے عددی
5۔ تجھ سا کوئی نہیں زمانے میں ضمیری
II ایک لفظ یا جملہ میں جواب دیجئے۔
1۔ ضمیر کی تعریف کیجئے اور مثال دیجئے۔
جواب: ضمیر وہ لفظ ہے جو اسم کی جگہ پر بولا جاتا ہے جیسے وہ ۔تم ۔میں وغیرہ
2۔ صفت کسے کہتے ہیں۔تعریف اور مثال دیجئے۔
جواب: صفت وہ لفظ ہے جو اسم کی کیفیت یا خصوصیت کو ظاہر کرے۔جیسے رشید محنتی لڑکا ہے۔
3۔ ضمیر شخصی کسے کہتے ہیں۔
جواب: وہ ضمیر جو کسی شخص کے نام کی جگہ پر استعمال ہو۔ جیسے تم۔آپ۔ میں ۔ان ۔ہمیں۔تمہیں۔
4۔ ضمیر استفہامیہ کو مثال کے ساتھ بیان کیجئے۔
جواب: وہ ضمیر ہے جو کسی سوال کے پوچھنے کے لیے استعمال ہو۔جیسے تم کون ہو؟۔تمہارا نام کیا ہے؟۔
5۔ صفت ذاتی کی تعریف کیجئے۔
جواب: وہ صفت ہے جو کسی اسم کی اندرونی یا بیرونی حالت و کیفیت کو ظاہر کرے۔ جیسے آم میٹھا ہے۔موسم گرم ہے۔تازہ کھانا کھائو وغیرہ۔ ان مثالوں میں میٹھا۔گرم۔تازہ صفت ذاتی ہے جو اسم کی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے۔
III صحیح جوڑ لگائیے۔
i) 1۔ ایرانی کھجور ( ج ) ( الف ) صفت مقداری
2۔ نادان دوست( ھ) ( ب ) صفت عددی
3۔ زیادہ ہنسی ( الف ) ( ج ) صفت نسبتی
4۔ تیس روزے( ب ) ( د ) صفت ضمیری
5۔ ایسا کام ( د ) ( ھ ) صفت ذاتی
ii) 1۔ کوئی بولو ( ج ) ( الف )ضمیر موصولہ
2۔ کس کی کتاب( ھ) ( ب )ضمیر اشارہ
3۔ آپ کا نام ( د ) ( ج )ضمیر تنکیر
4۔ وہ گاڑی ( ب ) ( د )ضمیر شخصی
5۔ جو سویا وہ کھویا( الف) ( ھ ) ضمیر استفہامیہ
3 جنس
جنس سے مراد اسموںکی تذکیر و تانیث ہے اس کی دوقسمیں ہیں۔ 1) جنس حقیقی 2) جنس غیر حقیقی
1) جنس حقیقی: نر جاندار کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر جاندار ہوتو اس کو جنس حقیقی کہتے جیسے لڑکا لڑکی وغیرہ۔ جنس حقیقی کی دو قسمیں ہیں۔ 1) مذکر 2 ) مونث۔
مذکر کی پہچان: جس جاندار کا آخری حرف الف یا ہ ہو تو وہ عام طور سے مذکر ہوتا ہے جیسے لڑکا۔راجہ وغیرہ
مونث کی پہچان:جس جاندار کا آخری حرف ی ۔ن۔نی یا انی ہو تو وہ عام طور پر مونث ہوتا ہے جیسے لڑکی۔مالن۔نوکرانی۔شیرنی وغیرہ۔
جنس حقیقی مذکر تذکیر و تانیث کے قاعدے:
1) مذکر کا آخری حرف الف یا ہ ہو تو اسے ہٹا کر ی لگادینے سے مونث بن جاتا ہے۔ جیسے
بیٹا بیٹی
مرغا مرغی
2) مذکر کے آخری حرف کو ۔ن۔ سے بدل کر مونث بناتے ہیں ۔جیسے
مالی مالن
درزی درزن
3) کسی بھی مذکر کے آخر میں نی یا انی کا اضافہ کرکے مونث بناتے ہیں جیسے
شیر شیرنی
دیور دیورانی
4) عربی اسم فاعل اور اسم مفعول کے آخر میں ہ کا اضافہ کرکے جیسے
محترم محترمہ
ادیب ادیبہ
5) مذکر کے آخر میں کچھ تبدیلی یا بغیر تبدیلی کے یا بڑھا کر مونث بناتے ہیں۔ جیسے
کتا کتیا
چوہا چوہیا
6 ) عموماً مذکر سے مونث بنتا ہے ۔لیکن کچھ مذکر ایسے بھی ہیں جو مونث سے الف بڑھا کر بنتے ہیں جیسے:
بلی بلاوڑ
لڑکی لڑکا
نانی نانا
7 ) اردو میں بہت سے ایسے اسم ہیں جن کے ساتھ کوئی علامت نہیں ہوتی۔لیکن ان کی حقیقی جنس کی رعایت کرتے ہوئے مذکر یا مونث بولتے ہیں جیسے
باپ ماں
شوہر بیوی
عورت مرد
٭ بعض جاندار ایسے ہوتے ہیں جو مذکر استعمال ہوتے ہیں ان کا مونث استعمال میں نہیں ہے جیسے:
اژدھا۔باز۔الو۔چیتا وغیرہ۔
٭ بعض جاندار ایسے ہیں جن کا مونث استعمال ہوتا ہے مذکر نہیں جیسے۔
چیل۔مینا۔بلبل۔لومڑی۔چھپکلی۔مچھلی۔کوئیل۔بٹیر ۔دیمک وغیرہ
2) جنس غیر حقیقی: غیر جاندار کا حقیقت میں کوئی مذکر یا مونث نہیں ہوتا لیکن اہل زبان کے استعمال کی بنا پر اسے مذکر یا مونث قرار دیتے ہیں جسے جنس غیر حقیقی کہتے ہیں۔اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔ 1) جنس غیر حقیقی مذکر 2) جنس غیر حقیقی مونث
1) جنس غیر حقیقی مذکر : بے جان چیزوں میں اہل زبان جن چیزوں کو مذکر کہتے ہیں وہ جنس غیر حقیقی مذکر کہلاتے ہیں۔ان اسماء کے آخر میں الف یا ہ ہوتا ہے جیسے لوٹا۔کمرہ وغیرہ
2) جنس غیر حقیقی مونث: بے جان چیزوںمیں اہل زبان جن چیزوں کو مونث کہتے ہیں وہ جنس غیر حقیقی مونث کہلاتے ہیں ۔ جیسے شیشی۔ڈوری۔عینک۔کتاب وغیرہ۔
جنس غیر حقیقی میں مذکر یا مونث کی پہچان کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی غیر حقیقی جسم کو ایک فعل کے ساتھ استعمال کیا جائے اور اہل زبان اس کا کس طرح بولتے ہیں اس کا اندازہ لگایا جائے جیسے کتاب گری۔ جملے میں ہم گری استعمال کرتے ہیں گرا نہیں۔ اسی طرح دوا مہنگی ہے کہتے ہیں ۔ مہنگا ہے نہیں کہتے۔ اس طرح ہم دیگر بے جان چیزوں کی جنس کا تعین کرسکتے ہیں۔
جنس غیر حقیقی کی پہچان:غیر جاندار اسماء کے آخر میں الف یا ہ ہو تو وہ عام طور پر مذکر ہوتے ہیں جیسے لوٹا ۔کپڑا۔چمچہ وغیرہ۔
اسی طرح غیر جان دار اسما ء کے آخر میں ی۔ت۔یا ۔ٹ ہو تو وہ عام طور پر مونث ہوتے ہیں۔جیسے ٹوپی۔شیروانی۔گھڑی۔صورت۔مورت۔چوٹ ۔لوٹ وغیرہ۔
I مختصر ترین سوالات
1۔ مندرجہ ذیل الفاظ کے مونث بنائیے۔
1 لڑکا لڑکی
2 ماما مامی
3 دھوبی دھوبن
4 مالی مالن
5 بھانجہ بھانجی
6 درزی درزن
7 مور مورنی
8 اونٹ اونٹنی
9 سید سیدانی
10 شاعر شاعرہ
2 مندرجہ ذیل الفاظ کے مذکر بنایئے۔
1 شہزادی شہزادہ
2 بچی بچہ
3 بندی بندہ
4 بنجارن بنجارہ
5 بندریا بندر
6 چوہیا چوہا
7 بوڑھیا بوڑھا
8 کتیا کتا
9 ادیبہ ادیب
10 سیٹھانی سیٹھ
II ایک جملے میں جواب دیجیے۔
1۔ جنس کی تعریف کیجیے۔
جواب: جنس سے مراد اسموںکی تذکیر و تانیث ہے اس کی دوقسمیں ہیں۔ 1) جنس حقیقی 2) جنس غیر حقیقی
2۔ جنس حقیقی سے کیا مراد ہے۔
جواب: نر جاندار کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر جاندار ہوتو اس کو جنس حقیقی کہتے جیسے لڑکا لڑکی وغیرہ۔ جنس حقیقی کی دو قسمیں ہیں۔ 1) مذکر 2 ) مونث۔
3۔ جنس غیر حقیقی کس کو کہتے ہیں۔
جواب: جنس غیر حقیقی: غیر جاندار کا حقیقت میں کوئی مذکر یا مونث نہیں ہوتا لیکن اہل زبان کے استعمال کی بنا پر اسے مذکر یا مونث قرار دیتے ہیں جسے جنس غیر حقیقی کہتے ہیں۔اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔ 1) جنس غیر حقیقی مذکر 2) جنس غیر حقیقی مونث
4 ۔ مذکر کی شناخت کیسے کی جاتی ہے۔
جواب: مذکر کی پہچان: جس جاندار کا آخری حرف الف یا ہ ہو تو وہ عام طور سے مذکر ہوتا ہے جیسے لڑکا۔راجہ وغیرہ
5۔ مونث کی پہچان بتائیے۔
جواب: مونث کی پہچان:جس جاندار کا آخری حرف ی ۔ن۔نی یا انی ہو تو وہ عام طور پر مونث ہوتا ہے جیسے لڑکی۔مالن۔نوکر وغیرہ۔
4 فعل
فعل کام کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع افعال ہے۔
فعل: فعل وہ کلمہ ہے جس سے کام کا کرنا یا ہونا پایا جائے۔اور اس میں کوئی زمانہ بھی پایا جائے۔جیسے احمد پڑھ رہا ہے۔ شاہین لکھ رہی ہے۔ محمود سورہا ہے۔
فعل کی اقسام: زمانے کے لحاظ سے فعل کی تین قسمیں ہیں۔ 1) فعل ماضی 2) فعل حال 3) فعل مستقبل
1)فعل ماضی: وہ فعل ہے جس میں گزرے ہوئے زمانے میں کسی کام کا کرنا یا ہونا واقع ہوا ہو۔جیسے احمد نے سبق یاد کیا۔راشد کامیاب ہوگیا۔گرمی شروع ہوگئی۔
ان مثالوں میںیاد کیا۔کامیاب کیا۔شروع ہوئی ۔فعل ماضی۔
فعل ماضی کی چھ قسمیںہیں۔1) ماضی مطلق 2) ماضی قریب 3) ماضی بعید 4 )ماضی استمراری 5) ماضی احتمالی 6) ماضی تمنائی
فعل ِحال: وہ فعل ہے جو موجودہ زمانے میںکسی کام کاکرنا یا ہونا ظاہر کرے ۔جیسے بارش ہورہی ہے۔احمد کھیل رہا ہے۔
فعل مستقبل: وہ فعل ہے جس میں آئیندہ زمانے میںکسی کام کی خبر دی جائے۔ جیسے کل چھٹی رہے گی۔بارش ہوگی۔ اس فعل کی پہچان یہ ہے کہ اس کے آخر میں گے گی ہوگا۔
فعل کی اقسام بہ لحاظ معنی: معنی کے لحاظ سے فعل کی پانچ قسمیںہیں۔1)فعل لازم 2)فعل متعدی 3) فعل ناقص 4) فعل معروف 5) فعل مجہول۔
I مختصر ترین سوالات
1 ان جملوں کو پڑھ کر فعل کی اقسام کی شناخت کیجیے۔
جملے فعل کی قسم
1) ماریہ نے کھانا پکایا۔ ( ماضی قریب )
2) شعیب کھیل رہا ہے۔ ( فعل حال )
3) شاداب کھیل رہا ہے۔ ( فعل حال )
4) کاش میں جیت جاتا۔ ( ماضی تمنائی )
5) بشیر آیا ہوگا۔ ( ماضی قریب )
6) صبح ہوگئی۔ ( ماضی )
2 ذیل کے جملوں کو فعلِ مستقبل میں تبدیل کیجیے۔
جملے فعل مستقبل
بارش ہوئی بارش ہوگی
پھول کھلتے ہیں پھول کھلیں گے
تارے بن کر چمکے تارے بن کر چمکیں گے
اعلان ہوا اعلان ہوگا
سورج نکلا سورج نکلے گا
دیر ہوگئی دیر ہوگئی ہوگی
4 مندرجہ ذیل مصرعوں میں فعل کی قسموںکی شناخت کیجیے۔
مصرعے فعل
زمانہ ہے کہ گزرا جارہا ہے یہ دریا ہے کہ بہتا جارہا ہے ماضی مطلق
آدمی آدمی سے ملتا ہے دل مگر کم کسی سے ملتا ہے فعل حال
کیا غم خوار نے رسوا لگے آگ اس محبت کو ماضی تمنائی
ٰٰII ایک جملے میںجواب دیجیے۔
1۔ فعل کی تعریف کیجیے اور مثال دیجیے۔
جواب: فعل کام کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع افعال ہے۔ جیسے کھانا۔کھیلنا۔پڑھنا۔لکھنا
2۔ زمانے کے لحاظ سے فعل کی کتنی قسمیں ہیں۔
جواب: زمانے کے لحاظ سے فعل کی تین قسمیں ہیں۔ 1) فعل ماضی 2) فعل حال 3) فعل مستقبل۔
3۔ فعل حال کی تعریف معہ مثال لکھیے۔
جواب: وہ فعل ہے جو موجودہ زمانے میںکسی کام کا کرنا یا ہونا ظاہر کرے ۔جیسے بارش ہورہی ہے۔احمد کھیل رہا ہے۔
4۔ فعل مستقبل کی تعریف کیجیے۔
جواب: وہ فعل ہے جس میں آئیندہ زمانے میںکسی کام کی خبر دی جائے۔ جیسے کل چھٹی رہے گی۔بارش ہوگی۔ اس فعل کی پہچان یہ ہے کہ اس کے آخر میں گے گی ہوگا۔
5۔ فعل مستقبل کی پہچان بتائیے۔
جواب: فعل مستقبل آنے والے زمانے میںہونے والے کام کو کہتے ہیں۔ جیسے ہم کامیاب ہوں گے۔ اس کی نشانی ہے کہ اس فعل کے آخر میں گا یا گی ہوگا۔
عبارت فہمی( Comprehension )
اردو ایک میٹھی اور مقبول زبان ہے ۔ اس کے شعر و ادب سے ہر کوئی لطف اندوز ہوتا ہے۔ اردو زبان کے ادبی سرمایے سے بہتر طور پر لطف اندوز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم زبان کی نزاکتوں سے واقف ہوں۔زبان کے ذخیرہ الفاظ کو بڑھاتے رہیں ۔ روز مرہ زبان‘ تشبیہ و استعارے اور اردو نثر کے مختلف اسالیب سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرتے رہیں۔ہر وہ فرد جو زبان و بیان کی نزاکتوں کا فہم رکھتا ہے وہ نہ صرف اس کی رعایتوں سے استفادہ کرتا ہے بلکہ اس کی سحر انگیزی سے دوسروں کو بھی متاثر کرتا ہے۔زبان کیا ہے، لطفِ زبان کسے کہتے ہیں، الفاظ کیا ہیں اور لفظوں کی بازی گری کس کو کہا جاتا ہے، یہی وہ اوصافِ کلام و بیان ہیں جن کا سہارا لے کر ایک قلم کاریا خطیب اپنے سامع اور قاری کے من میں اپنے لیے کشش پیدا کرتا ہے یا جگہ بنا لیتا ہے۔اردوایک وسیع القلب زبان ہے یہی وجہہ ہے کہ اردو میں دنیا بھر کی کئی زبانوں کے الفاظ اس طرح شامل ہوگئے ہیں کہ اب اردو کے الفاظ ہی لگتے ہیں۔ اردو زبان پر عبور کے لئے مطالعے کی وسعت کے ساتھ اہل زبان سے زبان کو سننا بھی ضروری ہے تاکہ الفاظ درست تلفظ کے ساتھ ادا ہوں۔زبان کی دو شکلیں ہوتی ہیں ایک معیاری زبان جس میں ادب اور علوم کی تعلیم ہوتی ہے اور علمی سطح پر اظہار خیال ہوتا ہے دوسرے مقامی بولی یا زبان جو ہر علاقے میں مقامی اثرات کے ساتھ بولی جاتی ہے۔زبان کے طالب علموں کے لئے ضروری ہے کہ وہ معیاری زبان استعمال کرنے کی مشق کریں۔ اس کے لیے روزنامچہ لکھنے کی عادت ڈالیں ۔ اور اپنی پسند کے موضوعات پر شعری و نثری فن پارے زیر مطالعہ رکھیں۔ مہارت زبان کے ضمن میں عبارت فہمی کی مشق بھی اہم ہے۔عبارت فہمی سے مراد دی گئی عبارت کو سمجھناو اور اس سے متعلق دئے گئے سوالات کے جوابات دینا ہے۔اکثر مسابقتی امتحانات میں عبارت فہمی کے سوالات دئے جارہے ہیں۔ عبارت فہمی کے لیے ضروری ہے کہ طلباء دی گئی عبارت کو غور سے پڑھیں۔عبارت کے موضوع کو سمجھیں۔مشکل الفاظ کے معنی سے واقف ہوتے ہوئے مکمل عبارت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔عبرت فہمی میںکسی شاعر یا ادیب کے حالات زندگی پوچھے جاتے ہیں۔کسی واقعے کی رپورٹ یا زندگی کے کسی موضوع پر معلوماتی عبارت دی جاتی ہے۔اکثر سوالات راست عبارت میں سے پوچھے جاتے ہیں۔کبھی کبھی کسی لفظ کے معنی‘مترادف‘ضدیا تذکیر و تانیث پوچھی جاتی ہیں۔اردو عبارت فہمی کا معیار بڑھانے کے لیے طلباء کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر مطالعے کا ذوق پروان چڑھائیں۔۔نصابی کتابوں کے علاوہ اپنی پسند کی دیگر کتابیں پڑھتے رہیں۔اساتذہ بھی طلباء کو نصابی کتاب کے علاوہ دیگر عبارتوں سے سوالات دے کر عبارت فہمی کی مشق کرائیں۔
ذیل میں کچھ ادبی اقتباسات دئے جارہے ہیں اور عبارت کے ضمن میں طلباء سے سوالات پوچھے جارہے ہیں۔
1 مندرجہ ذیل عبارت کا مطالعہ کریں اور دئے گیے سوالات کے جوابات لکھیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد 1888ء کو دنیا کے مقدس ترین مقام مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام مولانا خیرالدین تھا۔مولانا آزاد کا اصل نام احمد محی الدین تھا اور تاریخی نام فیروز بخت ۔ آزاد تخلص تھا۔لیکن اصل نام کے بجائے مولانا ابوالکلام آزاد سے مشہور ہوئے۔1885ء میں وہ کلکتہ پہونچے۔یہاں ان کی باقاعدہ تعلیم شروع ہوئی۔اللہ نے انہیں حافظہ اور ذہانت کی دولت سے فراخ دلی کے ساتھ نوازا تھا۔مولانا نے سب سے پہلا رسالہ ماہنامہ نیرنگ خیال1899ء میں جاری کیا ۔اس وقت مولانا کی عمر صرف گیارہ برس تھی۔مولانا نے 31جولائی1906ء کو ہفت روزہ الہلال کا پہلا شمارہ شائع کیا۔ان کا اہم مقصد ہندئووں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنا تھا۔الہلال میں ادبی‘علمی‘سیاسی اور تاریخی مضامین شائع ہوتے تھے۔مولانا آزاد کا انتقال22فروری 1958ء کو ہوا۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات لکھئے۔
1۔ مولانا آزاد کب اور کہاں پیدا ہوئے۔
جواب: مولانا ابوالکلام آزاد 1888ء کو دنیا کے مقدس ترین مقام مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔
2۔ مولانا خیر الدین کون تھے۔
جواب: مولانا خیر الدین مولانا آزاد کے والد تھے۔
3۔ الہلال کب جاری ہوا۔
جواب: الہلال1906ء میں جاری ہوا۔
4 ۔ مولانا آزاد کا انتقال کب ہوا۔
جواب: مولانا آزاد کا انتقال 22۔فروری1958ء کو ہوا۔
5۔ مولانا آزاد کا تاریخی نام کیا تھا۔
جواب: مولانا آزاد کا تاریخی نام فیروز بخت تھا۔
2 عبارت
’’ حیدرآباد کا شمار ملک کے ان چند بڑے شہروں میںہوتا ہے جو سیاحوںکو اپنی جانب راغب کرتا ہے۔ریاست تلنگانہ کا سیاحتی محکمہ ’’تلنگانہ ٹورازم ڈپارٹمنٹ‘‘ ایک سرکاری ادارہ ہے۔جو تلنگانہ میں سیاحت کو فروغ دیتا ہے۔تلنگانہ کے تاریخی تفریحی مقام چارمینار کو شہرت حاصل ہے۔قلعہ گولکنڈہ۔قطب شاہی سلاطین کا ایک یادگار قلعہ ہے۔جو ہندوستان کے چند مشہور قلعوںمیں ایک ہے۔گنبدان قطب شاہی میں قطب شاہی خاندان کے مزارات ہیں۔جو دکنی فن تعمیر کا شاہکار ہیں۔کاکتیہ کلاتھورانم ورنگل کی کاکتیہ سلطنت کی نشانی ہے۔ پتھر میں تراشیدہ بہت بڑا مجسمہ ہے جسے جلالی کمان بھی کہا جاتا ہے یہ تلنگانہ کا سرکاری نشان ہے۔مکہ مسجد حیدرآباد میں واقع ہے۔مسجد کی مرکزی کمان بنانے کے لیے مکہ معظمہ سے مٹی اور اینٹیں لائی گئیں۔چنانچہ اس مسجد کا نام مکہ مسجد پڑا۔تلنگانہ کے دیگر اہم سیاحتی مقامات میں کنٹالا آبشار جو ضلع عادل آباد میں واقع ہے۔ یہ آبشار148فٹ بلندی سے گرتا ہے۔اور یہ ریاست کا سب سے بڑا آبشارہے۔
مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات لکھئے۔
1۔ تلنگانہ میں کونسا ادارہ سیاحت کو فروغ دیتا ہے۔
جواب: تلنگانہ میں محکمہ سیاحت(ٹورازم ڈپارٹمنٹ) سیاحت کو فروغ دیتا ہے۔
2۔ تلنگانہ کا سرکاری نشان کونسا ہے۔
جواب: کاکتیہ کلاتھورانم ورنگل کی کاکتیہ سلطنت کی نشانی ہے۔ پتھر میں تراشیدہ بہت بڑا مجسمہ ہے جسے جلالی کمان بھی کہا جاتا ہے یہ تلنگانہ کا سرکاری نشان ہے۔
3۔ گنبدان قطب شاہی کیا ہیں۔
جواب: گنبدان قطب شاہی مزارات ہیں۔
4 مکہ مسجد کی تعمیر کے لیے خصوصی پتھر کہاں سے لائے گئے۔
جواب: مکہ مسجد کی تعمیر کے لیے خصوصی پتھر مکہ معظمہ سے لائے گئے اس لئے اس مسجد کا
نام مکہ مسجد پڑا۔
5 کنٹالا آبشار کہاں واقع ہے۔
جواب: کنٹالا آبشارضلع عادل آبادمیں واقع ہے۔
ترجمہ نگاری
زبان خیالات کے اظہار کا بنیادی ذریعہ ہے۔دنیا بھر میں کئی ممالک میں کئی زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہیں۔ ایک ملک یا علاقے میں رہنے والے لوگوں کے حالات‘خیالات اور واقعات‘علوم و فنون سے واقفیت دوسرے ممالک میں رہنے والی اقوام کی بھی ضرورت ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی علاقے میں کوئی واقعہ ہو‘ کوئی نئی بات پیش آئے ‘کچھ ایجادات سامنے آئیں یا علوم کی ترقی ہوتو ان سے متعلق معلومات کا دوسری اقوام سے تبادلہ جس سہولت کے ذریعے ہوتا ہے اسے ترجمہ نگاری یاTranslation کہتے ہیں۔ترجمہ نگاری ایک فن ہے ۔ اور انسان کی دیگر ضروریات کی طرح ترجمہ بھی ہماری ترقی کے لیے ضروری ہے۔دنیا اب گلوبل ولیج بن گئی ہے اور دنیا بھر میں پل پل ہورہی تبدیلیوں کا علم ہمیں ترجمہ نگاری کی مدد سے ہی ملتا ہے۔
ترجمہ نگاری کی تعریف:
کسی ایک زبان میں بیان کردہ خیالات یا معلومات کو دوسری زبان میںاس طرح منتقل کرنا کہ ایک زبان کی بات دوسری زبان میں مکمل اور واضح طور پر منتقل ہوجائے اسے ترجمہ نگاری کہتے ہیں۔ ترجمہ دو زبانوں کے درمیان ہوتا ہے۔ جس زبان سے ترجمہ کیا جارہا ہے اسے وسیلے کی زبان یاSource Language کہتے ہیں۔ اور جس زبان میں کیا جارہا ہے اسے حدف کی زبان یا Target Languageکہتے ہیں۔ ترجمے کے لیے جو عبارت سامنے ہوتی ہے اسے متن یا Textکہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم انگریزی زبان سے ترجمہ کر رہے ہیں تو اسے Source Language(SL)کہیں گے اور انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر رہے ہوں تو اسے Target Language(TL)کہیں گے۔اور دونوں زبانوں کی عبارت متن یا Textکہلائے گی۔
ترجمے کی اہمیت:
ترجمہ نگاری قوموں کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ترجمے کی مدد سے ایک زبان اور تہذیب کادوسری زبانوں اور تہذیبوں سے تعارف ہوتا ہے۔ ایک قوم کے علمی ذخیرے سے دوسری قومیں آگاہ ہوتی ہیں۔ ایک انسانی گروہ کے تجربات سے دوسرے گروہوں کو فائدہ ہوتا ہے۔اور عالمی سطح پر انسانی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے۔ ترجمے کی مدد سے دنیا میں وقوع پذیر کسی بھی واقعہ کی اطلاع ہمیں فوری مل جاتی ہے۔ ترجمے کی سماجی اہمیت کے پیش نظر کسی بھی ملک و قوم میں مترجمین کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ دو زبانیں بولنے والے ملک کے سربراہان جب ملاقات کرتے ہیں تو ان کے درمیان ایک مترجم ہی ہوتا ہے جو دونوں کے خیالات کو فوری ترجمے کے ذریعے پیش کرتا ہے۔ اقوام متحدہ میں دنیا بھر کے سربراہان جب اپنی اپنی زبان میں تقاریر کرتے ہیں تو ترجمے کے مدد سے ان کے خیالات ایک دوسرے کو پیش کئے جاتے ہیں۔ خبروں کے بروقت ترجمے کے لیے اخبارات اور ٹیلی ویژن کے اداروں میں مترجمین کا تقرر ہوتا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی سرکاری کام کاج میں سہولت کے لیے مترجمین کا تقرر کیا جاتا ہے۔ علوم کی کتابوںکا ترجمہ بھی ماہرین کی مدد سے مسلسل جاری رہتا ہے۔ ترجمے کی اسی افادیت کے پیش نظر کہا جاتا ہے کہ ترجمہ ہمارے لیے اس قدر ضروری ہے جس قدر سانس۔
ترجمہ کی اقسام:
ترجمے کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں۔ 1۔ لفظی ترجمہ اور 2۔ آزاد ترجمہ۔ اس کے علاوہ تخلیقی ادب میںشاعری اور نثری اصناف کا ترجمہ اور مذہبی تراجم بھی ترجمے کی اقسام ہیں۔لفظی ترجمے میں صرف لفظ سے لفظ کا ترجمہ ہوتا ہے جو الفاظ کے ترجمے کی حد تک مناسب ہوتا ہے۔ تاہم جب ہم عبارت کا ترجمہ کرتے ہیں تو اس میں کئی عوامل شامل رہتے ہیں اور ایک زبان کی تہذیب اور اس کے محاوروں کے نظام کے ساتھ مکمل خیال کی ترسیل لازمی ہوتی ہے جو آزاد ترجمے میں عمل میں آتی ہے۔ جس میں الفاظ کے ترجمے کے ساتھ ساتھ مکمل خیال کے ترجمے کو اہمیت دی جاتی ہے۔
ترجمے کے آلات:
ترجمہ کرنے والے کو مترجم کہتے ہیں۔ مترجم کی اپنی ذاتی علمی قابلیت کے علاوہ فن ترجمہ نگاری میں مدد حاصل کرنے کی لیے اس کے ساتھ حسب ذیل سہولت کی اشیاء کا ہونا ضروری ہے۔
1۔لغت 2۔ انسائیکلوپیڈیا 3 کمپیوٹر معہ انٹرنیٹ 4مجموعہ اصطلاحات 5۔ مجموعہ امثال و محاورات‘ مترادفات و اضداد 6۔ مخصوص موضوعات جیسے فقہ، معاشیات، طب، سائنس وٹیکنالوجی کی کی اصطلاحات والی کتابیں۔
ترجمے کے لیے مشینوں کے استعمال میں احتیاط لازمی ہے ۔انٹرنیٹ پر گوگل میں ترجمے کی سہولت موجود ہے ۔ لیکن صرف لفظی ترجمہ کسی حد تک درست ہورہا ہے جملوں کا ترجمہ ٹھیک نہیں ہورہا ہے ۔ البتہ فون میں کچھ اپلیکیشن ہیں جو ایک ایک جملے کا ترجمہ بھی بہت حد تک درست کر رہے ہیں پلے اسٹور میں U Dictionaryنام کا ایک اپلیکیشن ہے۔ جس میں انگریزی سے اگر ہم اردو زبان کا ترجمہ سہولت ڈائون لوڈ کرلیں اور سرچ بار میں انگریزی لفظ یا جملہ لکھیں تو مکمل لفظ یا جملے کا بہت حد تک درست ترجمہ ہورہا ہے۔فون میں وائس ٹائپنگ اور لفظ کی تصویر لینے سے بھی ترجمہ کی سہولت موجود ہے۔مترجم کو چاہئے کہ وہ ترجمے کے وقت ان سہولتوں کو استعمال کرتا رہے۔
مترجم کے اوصاف:
ترجمہ نگاری ایک فن ہے اور اس فن میں مہارت کے لیے مترجم کو حسب ذیل شرائط کی پابندی لازمی ہے۔
ترجمہ نگاری کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مترجم اصل تصنیف کی زبان، اس کے ادب اور اس کی تہذیب سے بخوبی واقف ہو۔ اصل عبارت کسی حالت میں مترجم کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کیونکہ مترجم بہرصورت متن کے مرکزی خیال کا پابند ہے۔ اگر مترجم انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر رہا ہو تو اسے انگریزی زبان اس کے قواعد اس کے محاوراتی نظام اور علاقوں کے اعتبار سے اس کی لفظیات اور دیگر امور سے واقفیت رکھنا لازمی ہے۔
دوسری اہم شرط اپنی زبان پر اس کی قدرت اور نئے خیالات کے اظہار کے لیے نئے الفاظ، ترکیبیں اور اصطلاحات وضع کرنے کی استعداد ہے۔ یعنی مترجم اردو میں ترجمہ کر رہا ہو تو اسے اردو زبان کی تمام باریکیوں اور اظہار خیال کے طریقوں سے واقفیت ضروری ہے۔ کیوں کہ مترجم کی حیثیت دو زبانوں اور دو قوموں کے درمیان لسانی اور ثقافتی سفیر کی ہوتی ہے۔تیسری شرط یہ ہے کہ مترجم کوفن ترجمہ نگار میں دلچسپی اور شوق و شغف اور انہماک ہو ۔اگر مترجم کو اپنے فن کا شوق نہیں تو وہ اس فن سے انصاف نہیں کرسکتا۔ مترجم کو امانت دار بھی ہونا چاہئے اور ایک زبان کی بات کو امانت کے طور پر دوسری زبان میں منتقل کرے اپنی طرف سے کچھ کمی زیادتی نہ کرے۔مترجم کو چاہئے کہ وہ ترجمہ نگاری کے دوران صبر سے کام لے اور گھبراہٹ اور پریشانی کا شکار نہ ہو۔ جب تک کسی پیچیدگی کو حل نہ کر لے، چین سے نہ بیٹھے، چاہے جتنا وقت لگ جائے۔
٭ ترجمے کے اصول
1۔ اصل عبارت ہر وقت مترجم کے پیش نظر رہنی چاہیے۔ وہ بہر صورت متن کا پابندر ہے۔
2۔ مترجم کو اصل عبارت میں اپنی جانب سے حذف، اضافہ یا ترمیم کا کوئی حق حاصل نہیں۔
3۔ ترجمہ میں سہولت کے لیے متن کاآگے پیچھے کرنا مناسب نہیں۔
4۔ جملے پیچیدہ اور طویل ہوں تو ترجمے میں انھیں چھوٹے جملوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
5۔ اصطلاحات کا ترجمہ جوں کا توں ممکن نہ ہو تو قریب ترین مفہوم میں کیا جائے اور بہتر ہے کہ الگ سے ان کی فہرست دے دی جائے۔
6۔ محاورات اور امثال کا ترجمہ دوسری زبان کے محاورات و امثال سے ہو جائے تو بہتر ہے، ورنہ انھیں سادہ الفاظ میں بیان کر دینا چاہیے۔
7۔ مترجم حسبِ ضرورت لغت سے ضرور مدد لے۔ حافظہ پرکلّی بھروسہ مناسب نہیں۔
8۔ ترجمہ میں اصل کام خیالات کی صحیح ترسیل ہے، البتہ اسلوب رواں، شستہ اور جاذب ہو تو بہتر ہے۔
٭ ترجمے کے مراحل:
سب سے پہلے مترجم پورے متن کا سرسری مطالعہ کرلے، تاکہ اسے موضوع کا فہم حاصل ہو جائے۔ پھرپورے متن کا ٹھہر ٹھہر کر مطالعہ کرے۔اس کے بعد مشکل الفاظ و معانی کو حل کرے۔ پھر متن کو سامنے رکھ کر ترجمہ کرے۔ ترجمہ مکمل کرنے کے بعدمتن کو سامنے رکھے بغیر عبارت کو درست کرے اورروانی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اور آخر میں پھر ترجمہ پر نظر ثانی کرے اور املا، قواعد اور اسلوب کی غلطیوں کو درست کرے۔
ترجمہ نگاری پر عبور کے لیے جس شعبے میں ترجمہ کرنا ہو اس سے متعلق اہم کتابوں کا مطالعہ لازمی ہے۔ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کی مدد سے دونوں زبانوں سے متعلق مواد کا مشاہدہ ہو۔مسلسل مشق سے بھی ترجمہ نگاری پر عبور حاصل ہوتا ہے۔
ترجمہ نگاری کی مشق ہندوستانی تہذیب
India is a well known country of oldest civilization in the world where people of many ethnic groups live together for years. India is a country of diverse civilization where people used almost 1650 spoken languages and dialects according to their religion and choice. In spite of being related from different cultures, traditions, religions and languages; people here respect each other and live together with lots of love and feeling of brotherhood.
ہندوستان دنیا بھر میں ایک مشہور تہذیب یافتہ ملک ہے۔جہاں صدیوں سے مختلف نسلوں کے لوگ مل جل کر رہ رہے ہیں۔ہندوستان متنوع تہذیب والا ملک ہے جہاںلوگ اپنے مذہب اور پسند کے مطابق تقریبا1650سے ذائد زبانیں اور بولیاں بولتے ہیں۔مختلف ثقافتوں‘رسم و رواج‘مذاہب اور زبانیں بولنے والوں سے تعلق رکھنے کے باوجود یہاں لوگ ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں۔اور پیار محبت اور بھائی چارے کے جذبے کے ساتھ رہتے ہیں۔.
2 کھیل کود
Sports are the physical activity done in particular ways of style and all are named accordingly. Indian government has made compulsory playing the sports in the schools and colleges for the student's welfare and good health as well as improving mental skill.
کھیل کود مخصوص طرز پر کی جانے والی جسمانی سرگرمی ہے۔جسے اس کی مناسبت سے نام دئیے گئے ہیں۔ حکومت ہند نے طلباء کی فلاح و بہبود ان کی بہتر صحت اور ذہنی مہارتوں کو بہتر بنانے کے لیے اسکولوں اور کالجوں میں کھیل کود کو لازمی قرار دیا ہے۔بچوں کی کسی بھی کھیل میں شرکت لازمی اور ضروری ہے۔گھروں میں والدین اور اسکولوں میں اساتذہ بچوں کی حوصلہ افزائی کریں۔
3 اخلاقی قدریں
The moral values in life hold great importance from the point of personal, social and spiritual development. Values, morals and ethics are inextricably tied together. Values are what we learn from childhood; the 'stuff' we acquired from our parents and immediate surroundings.
اخلاق و اقدار زندگی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔شخصی‘سماجی اور روحانی نقطہ نظر سے بھی یہ ترقی کے ضامن ہیں۔اقدار اخلاق اور تہذیب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔اخلاق و اقدار ہیں جو ہم بچپن سے سیکھتے ہیں۔اپنے والدین اور اطراف و اکناف سے اخلاق و اقدار کو اپنا تے ہیں۔
عملی کام
اس اقتباس کا ترجمہ کیجیے۔
Time Management is the technique to use one's time efficiently so as to make the most of it. As easy as it may seem, it takes a lot of efforts to master this technique. One who learns how to manage time can achieve almost anything in life. It is said that the first step towards success is efficient time management. One who cannot manage his time properly is likely to fail at almost everything he does.
وقت کی تنظیم ایک تکنیک ہے جس سے کوئی اپنا وقت مہارت سے استعمال کرسکتا ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ کام کرسکتا ہے۔یہ جتنا آسان لگتا ہے لیکن اس تکنیک پر مہارت حاصل کرنے کے لیے کڑی محنت لگتی ہے۔جس نے وقت کی تنظیم کو سیکھ لیا وہ اپنی زندگی میں کچھ بھی حاصل کرسکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ وقت کی تنظیم کامیابی کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔جو وقت کی تنظیم نہیں کرسکتا امکان ہے کہ وہ جو بھی کام کرے اس میں ناکام ہوجائے۔
0 تبصرے