Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

غزل شادؔ عظیم آبادی

غزل  شادؔ عظیم آبادی

غزل  شادؔ عظیم آبادی

شاعر کا تعارف:سید علی محمد شادؔ عظیم آبادی تخلص۔(-1927 1846ء)  اردو غزل کے نامور شاعر گزرے ہیں۔عظیم آبادپٹنہ میں پیدا ہوئے۔ شاد نے امارت اور ریاست کی آغوش میں آنکھ کھولی۔ مولوی میر سید محمد سے عربی، فارسی اور دینیات کی تعلیم لائق اساتذہ سے حاصل کی۔ شاعری میں الفت حسین فریاد عظیم آبادی سے تلمذ حاصل تھا۔ شادنے کچھ غزلوں پر صغیر بلگرامی سے بھی اصلاح لی تھی۔ میر انیس اور مرزا دبیر کی صحبتوں سے بھی بہت فیض یاب ہوئے۔ شاد انگریزی اور ہندی زبان سے بھی واقف تھے۔ شاد کا ننھیال پانی پت تھا۔ ایک مرتبہ وہ وہاں گئے اور حالی سے ملاقات کی۔ 

    علی گڑھ بھی گئے اور سرسید سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ہندودیوان اور خزانچی نے ان کی ریاست وجاگیر کا بڑا حصہ فروخت کردیا اور روپیہ خرد برد کردیا۔ جو شخص ہزاروں اور لاکھوں میں کھیلتا تھا اسے اپنی آخری زندگی صرف سوروپیہ ماہانہ کی امداد پر گزر بسر کرنی پڑی۔ شاد کئی سال تک پٹنہ میں آنریری مجسٹریٹ رہے۔ ان کی ادبی خدمات کے صلے میں سرکار سے ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب ملا۔ شاد کو اپنے زمانے کا میر کہا گیا ہے۔’ان کے کلام میں میر اور آتش کا رنگ دکھائی دیتا ہے۔  ــ’’مئے خانہ الہام‘‘ کے نام سے ان کا دیوان چھپ گیا ہے۔ مراثی ، رباعیات، مثنویات اور نثر کی کئی کتابیں ان کی یادگار ہیں۔7جنوری1927ء کو پٹنہ میں ان کا انتقال ہوا۔شاد نے تمام صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ قصیدہ، مرثیہ ،مثنوی، قطعہ، رباعی ، غزل تمام اصناف پر آپ کا کلام موجود ہے۔ غزل آپ کی محبوب صنف سخن رہی ہے۔ شاد عظیم آبادی بہاراسکول کے سب سے زیادہ کامیاب شاعر ہیں۔ تمام ناقدین نے ان کی شاعری کی تعریف کی ہے۔

اشعار کی تشریح

شعر1:        ڈھونڈھو گے اگر ملکوں ملکوں‘ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

             تعبیر ہے جس کی حسرت و غم‘اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

حوالہ:     یہ شعر شادؔ عظیم آبادی کی غزل سے لیا گیا ہے۔ یہ غزل کا مطلع ہے۔
تشریح:    غزل کے مطلعے میں شاعر شادؔ عظیم آبادی نے اپنی انفرادیت کا اظہار کیا ہے۔ شاعر کو اپنی شاعرانہ عظمت پر ناز ہے اور خود ستائی کے انداز میں وہ کہتے ہیں کہ ان کے جیسا عظیم شاعر دنیا میں کہیں بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔ انہوں نے اپنے آپ کو نایاب کہا ہے۔ شاعر دوسرے مصرعے میں اپنی انفرادیت کی وجہہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں وہ خواب ہوں جس کی تعبیر حسرت و غم ہے۔ میر تقی میرؔ نے بھی اپنے بارے میں کچھ یوں ہی کہا تھا کہ مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں۔ تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں۔ شاد عظیم آبادی بھی کچھ اس انداز سے ہی اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ حسرت و غم کی تصویر بنے ان جیسے شاعر ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے اور اس نوعیت کے وہ نایاب شاعر ہیں۔ اردو شاعروں میں یہ انداز رہا ہے کہ انہوں نے شاعری کے ذریعے اپنی خود ستائی کی ہے۔جو کچھ حد تک اس لیے بھی درست لگتی ہے کہ اردو شعرو ادب کی دنیا بھی ان کا نام ہوا ہے اور شاد عظیم آبادی بھی اردو غزل کے ایسے ہی ایک نامور شاعر گزرے ہیں۔
مرکزی خیال:شاعر حسرت و غم میں ڈوبا ہوا ہے۔اور یہی اس کی انفرادیت ہے جس کے سبب وہ کہہ رہا ہے کہ ساری دنیا میں ڈھونڈنے سے بھی اس جیسا غموں میں ڈوبا کوئی نہیں ملے گا۔

 شعر2:        اے درد بتا کچھ تو ہی بتا! اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا

                    ہم میں ہے دلِ بے تاب نہاں یا آپ دلِ تاب ہیں ہم

حوالہ:    یہ شعر شادؔ عظیم آبادی کی غزل سے لیا گیاہے۔
تشریح:     غزل کے اس شعر میں شاعر اپنے غم کی کیفیت کو شاعرانہ انداز میں بیان کرتا ہے۔ شادؔ درد سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے درد تو ہی بتا کہ بے تاب دل ہمارے اندر چھپا ہوا ہے یا ہم خود بے تاب دل بنے ہوئے ہیں۔ غم کے سبب درد و غم کی شدت بڑھ گئی ہے تو شاعر کے دل کی بے تابی اس کے حرکت و عمل سے ظاہر ہورہی ہے اور ایک شاعرانہ انداز میں شاعر کہنے لگتا ہے کہ دل کی بے تابی دل کی حد تک ہی محدود ہے یا سارا جسم دل کی طرح بے تاب ہوگیاہے۔ انسان کو عشق کے سبب غموں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ عشق اپنے خدا کی یاد میں ہوتاہے یا دنیا کی کسی چیز کے حصول کی خاطر۔ جب انسان کسی چیز کو حاصل کرنے کی دھن سوار کرلیتا ہے تو اسے پانے کی جستجو میں لگ جاتا ہے اس دوران اسے غموں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ غم کے سبب دل مایوس ہوجاتا ہے اور دل کی مایوسی اس کے حرکت و عمل سے ظاہر ہونے لگتی ہے اپنی اس کیفیت کو شاعر نے اس شعر میں نازک خیالی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
مرکزی خیال: شاعر غموں میں اس قدر ڈوب گیا ہے کہ اسے پتہ نہیں چل رہا ہے کہ درد اس کا دل میں ہے یا وہ سراپا درد بن گیا ہے۔
شعر 3:        میں حیرت و حسرت کا مارا‘خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
                  دریائے محبت کہتا ہے آ! کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم

حوالہ:    یہ شعر شادؔ عظیم آبادی کی غزل سے لیا گیاہے۔
تشریح: غزل کے اس شعر میں شاعر جذباتی انداز میں کہتے ہیں کہ وہ محبت کے سمندر کے ساحل پر حیرت سے خاموش کھڑے ہیں کہ انہیں اس غموں سے بھری اس دنیا میں محبت ملے گی یا نہیں تب محبت کا جذبہ ان سے کہتا ہے کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جس کا نظارہ ساحل کنارے ٹہر کر نہیں لگایا جاسکتا بلکہ محبت ایک دوسرے سے مل کر رہنے سے پروان چڑھتا ہے محبت دو گے تو محبت ملے گی محبت ایک ایسا سمندر ہے جس کی گہرائی ڈوب جانے لائق نہیں ۔ یعنی کوئی بھی محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر دنیا میں محبت کے پیغام کو عام کرسکتا ہے۔ لوگوں کو اس دنیا میں اکثر شکایت رہتی ہے کہ انہیں محبت نہیں ملتی اور اسی وجہہ سے لوگ مایوس اور غمزدہ رہتے ہیں جب کہ محبت کا فلسفہ یہ ہے کہ محبت ایک دوسرے سے مل کر رہنے سے بڑھتی ہے۔
مرکزی خیال: شاعر محبت کے جذبے سے انجان کھڑا ہے۔ تب جذبہ محبت کہتا ہے کہ اسے تب ہی محسوس کر سکتے ہو جب ہم اس کی گہرائی میں اتر کر لوگوں میں محبت کو عام کریں گے۔
شعر4        اے ضعف تڑپتے جی بھر کر تونے مری مشکیں کس دی ہیں
                ہو بند اور آتش پر ہو چڑھا سیماب بھی وہ سیماب ہیں ہم

حوالہ:    یہ شعر شادؔ عظیم آبادی کی غزل سے لیا گیاہے۔
تشریح:    غزل کے اس شعر میں شاعر اپنی ضعیفی پر افسوس کرتے ہیں کہ اس ضعف نے ہماری راہ میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ عشق کے جذبے سے ہم معمور ہیں۔ اور اپنے عاشق کی یاد میں جی بھر کی ترپنا چاہتے ہیں۔ وہ پارے کی طرح مثال دیتے ہیں کہ اگر اسے کسی برتن میں بند کردیا جائے اور اس برتن کو آگ پر رکھ دیا جائے تو گرمی کے سبب جس طرح پارہ ابلنے لگتا ہے۔ اسی طرح عشق کی گرمی کے سبب ہم بھی تڑپیں گے مچلیں گے اور اپنے عشق کا اظہار کریں گے۔ لیکن ہمارا بڑھاپا ہمیں یہ سب کرنے سے روکتا ہے۔ شاعر خدا کی یاد میں بے چین ہے وہ اپنے محبوب خدا سے ملنے کے لئے آگے بڑھنا چاہتا ہے کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن اس کا بڑھاپا اس کے جوش و جذبے میں حائل ہے۔
مرکزی خیال: شاعر مثل پارہ جذبہ عشق میں مچلنا چاہتا ہے کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن اس کا بڑھاپا اس کی راہ میں حائل ہے۔
شعر5:        ہوجائے بکھیڑا پاک کہیں ‘پاس اپنے بلالیں بہتر ہے
                اب دور جدائی سے ان کے اے آہ بہت بیتاب ہیں ہم

حوالہ:    یہ شعر شادؔ عظیم آبادی کی غزل سے لیا گیاہے۔
تشریح:    شاعر اپنے محبوب حقیقی خدا سے دور ہے۔ اس کی یاد میں تڑپ رہا ہے۔ اسے محبوب کی جدائی برداشت نہیں ہوتی ۔ اس لئے وہ اس عارضی زندگی سے تنگ آکر موت کی تمنا کرتا ہے تاکہ زندگی کا قصہ ہی ختم ہوجائے۔اس لئے وہ اپنے مالک خدا سے دعا کرتا ہے کہ وہ اسے اپنے پاس بلالے۔ تاکہ اس جدائی کے سبب پیدا ہونے والی بے تابی ختم ہوجائے اور محبوب کے دیدار سے سکون مل جائے۔ انسانی زندگی میں جب مسائل بہت زیادہ ہوجائیں۔ اگر انسان لا علاج مرض میں مبتلا ہوجائے یا زندگی کی جنگ ہار دے تو ہمت ہار کر کہتا ہے کہ موت آگئی تو قصہ ہی ختم ہوجائے گا۔ اور ساری تکلیفیں دور ہوجائیں گی۔ انسان موت کو تکلیفوں کا خاتمہ سمجھتا ہے لیکن مرنے کے بعد کی بھی ایک زندگی ہے جہاں عمل کا موقع نہیں ۔ اس لئے مایوسی کے شکار لوگوں کو مسائل کا سامنا کرتے ہوئے زندگی گزارنا چاہئے۔ اور یوں موت کی تمنا نہیں کرنی چاہئے۔
مرکزی خیال:محبوب سے جدائی سے بیزار انسان موت کی تمنا کرتا ہے اور خدا سے دعا کرتا ہے کہ وہ اسے اپنے پاس بلالے تاکہ اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے اور غموں کا بکھیڑا دور ہوجائے۔ غم کی شدت کے سبب شاعر نے یہ خیال پیش کیا ہے۔
شعر6:        لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہونچتے ہیں دو ایک
                 اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم

حوالہ:    یہ شعر شادؔ عظیم آبادی کی غزل سے لیا گیاہے۔
تشریح:    شاعر غزل کے اس شعر میں اپنی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دنیا میں لاکھوں لوگ اپنے مقصد کی تلاش میں چلتے ہیں لیکن بہت کم ہیں جو کامیابی حاصل کرپاتے ہیں اور منزل حاصل کرتے ہیں۔ شاعر کو اپنی شخصیت پر ناز ہے اس لئے وہ کہتا ہے کہ ہم وہ ہیں جس نے زندگی میں منزل کو پالیا۔ اگر ہم نایاب نہیں تو کمیاب ہیں۔ اس لئے وہ زمانے سے اپنی قدر کرنے کی بات کرتا ہے۔ دنیا میں کچھ انانیت پسند لوگ ہوتے ہیں جنہیں اپنی عارضی کامیابی پر ناز ہوتا ہے اور دنیا سے اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ زمانہ ان کی قدر کرے۔
مرکزی خیال:    شاعر کو احساس ہے کہ اس نے زندگی میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور وہ زمانے سے کہتا ہے کہ ان کی قدر کرلے۔ کیوں کہ اس کی طرح کے لوگ نایاب نہیں تو کمیاب تو ضرور ہیں۔

شعر7:        مرغان قفس کو پھولوں نے اے شادؔ! یہ کہلا بھیجا ہے
                 آجائو جو تم کو آنا ہوایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم

حوالہ:    یہ شعر شادؔ عظیم آبادی کی غزل سے لیا گیاہے۔یہ غزل کا مقطع ہے۔
تشریح:    غزل کے مقطعے میں شاعر شادؔ عظیم آبادی کہتے ہیں قفس کے پھولوں نے پرندوں سے یہ پیغام کہلا بھیجا ہے کہ اگر کوئی ہمیں دیکھنا چاہے تو آکر دیکھ لے کہ ابھی ہم شاداب ہیں۔قفس کی زندگی نے ہم پر کچھ اثر نہیں ڈالا۔ اور ہم شاداب اور تروتازہ ہیں۔ شاعر نے اس شعر میں اپنے تعلق سے مثبت رویے کا اظہار کیا ہے کہ اور کہا کہ زندگی کی قید میں بھی رہ کر وہ آباد و شاداب ہے۔ اور زمانے کے سرد و گرم اور مشکل حالات نے اس پر کچھ اثر نہیں ڈالا۔
مرکزی خیال:    شاعر زندگی کی قید میں ہے۔ لیکن زمانے کے حالات نے اس پر کچھ برا اثر نہیں کیا اور وہ دنیا والوں سے کہہ رہا ہے کہ کوئی آکر دیکھ لے کہ وہ کس طرح شاداب ہے۔

سوالات

I۔    متن کے حوالے درج ذیل اشعار کی تشریح کیجئے۔

    1    ڈھونڈھو گے اگر ملکوں ملکوں‘ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم                    تعبیر ہے جس کی حسرت و غم‘اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
جواب:        شعر1کی تشریح دیکھیں۔
    2    اے درد بتا کچھ تو ہی بتا! اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا   
        ہم میں ہے دلِ بے تاب نہاں یا آپ دلِ تاب ہیں ہم

جواب:        شعر 2کی تشریح دیکھیں۔
    3    لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہونچتے ہیں دو ایک                    اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم
جواب:        شعر6کی تشریح دیکھیں۔

II۔        ایک لفظ یا جملے میں جواب لکھیے۔

    1۔    شادؔ کا اصل نام کیا تھا۔
جواب:        شادؔ کا اصل نام سید علی محمد تھا۔
    2۔    شادؔ کی تاریخ پیدائش لکھیے۔
جواب:        شادؔ 1846ء میں عظیم آباد پٹنہ میں پیدا ہوئے۔
    3۔    حکومت نے شاد کو کس خطاب سے نوازا تھا۔
جواب:        حکومت نے شادؔ کو ’’ خان بہادر‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا۔
    4۔    شادؔ کے دیوان کا نام بتائیے۔
جواب:        شادؔ کے دیوان کا نام’’ نغمہ الہام‘‘ ہے۔
    5۔    مقطع کسے کہتے ہیں۔ مثال دیجیے۔
جواب:        غزل کے آخری شعر کو جس کے ذریعے شاعر اپنی بات ختم کرتا ہے اور جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہتے ہیں۔ شادؔ کی غزل کا مقطع اس طرح ہے۔مرغان قفس کو پھولوں نے اے شادؔ! یہ کہلا بھیجا ہے    آجائو جو تم کو آنا ہوایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم

III        پندرہ سطروں میں جواب لکھیے ۔

    1۔    شاد ؔ عظیم آبادی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں۔
    2۔    شادؔ کی شاعرانہ خصوصیات پر نوٹ لکھیے۔

جواب:    شاد ؔعظیم آبادی(-1927 1846ء)  اردو غزل کے نامور شاعر گزرے ہیں۔  عظیم آبادپٹنہ میں پیدا ہوئے۔ شاد نے امارت اور ریاست کی آغوش میں آنکھ کھولی۔ مولوی میر سید محمد سے عربی، فارسی اور دینیات کی تعلیم لائق اساتذہ سے حاصل کی۔ شاعری میں الفت حسین فریاد عظیم آبادی سے تلمذ حاصل تھا۔ شادنے کچھ غزلوں پر صفیر بلگرامی سے بھی اصلاح لی تھی۔ میر انیس اور مرزا دبیر کی صحبتوں سے بھی بہت فیض یاب ہوئے۔ شاد انگریزی اور ہندی زبان سے بھی واقف تھے۔ شاد کا ننھیال پانی پت تھا۔ ایک مرتبہ وہ وہاں گئے اور حالی سے ملاقات کی۔ علی گڑھ بھی گئے

     اور سرسید سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ہندودیوان اور خزانچی نے ان کی ریاست وجاگیر کا بڑا حصہ فروخت کردیا اور روپیہ خرد برد کردیا۔ جو شخص ہزاروں اور لاکھوں میں کھیلتا تھا اسے اپنی آخری زندگی صرف سوروپیہ ماہانہ کی امداد پر گزر بسر کرنی پڑی۔ شاد کئی سال تک پٹنہ میں آنریری مجسٹریٹ رہے۔ ان کی ادبی خدمات کے صلے میں سرکار سے ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب ملا۔ شاد کو اپنے زمانے کا میر کہا گیا ہے۔’ان کے کلام میں میر اور آتش کا رنگ دکھائی دیتا ہے۔  ــ’’مئے خانہ الہام‘‘ کے نام سے ان کا دیوان چھپ گیا ہے۔ مراثی ، رباعیات، مثنویات اور نثر کی کئی کتابیں ان کی یادگار ہیں۔7جنوری1927ء کو پٹنہ میں ان کا انتقال ہوا۔شاد نے تمام صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ قصیدہ، مرثیہ ،مثنوی، قطعہ، رباعی ، غزل تمام اصناف پر آپ کا کلام موجود ہے۔ غزل آپ کی محبوب صنف سخن رہی ہے۔ شاد عظیم آبادی بہاراسکول کے سب سے زیادہ کامیاب شاعر ہیں۔ تمام ناقدین نے ان کی شاعری کی تعریف کی ہے۔
شاعری کی خصوصیات:
    شادعظیم آبادی انیسویںصدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے ان مستقل مزاج کلاسیکی شاعروں میں سے ایک ہیں۔ انہوںنے غزل کی صنف پر طرح طرح کے اعتراضات کے زمانے میں بھی اپنی غزل گوئی کے عَلَم کو بلند رکھا۔
     شاد ؔکی غزل آج بھی اگر زندہ ہے تو محض اپنے ڈکشن کے بل بوتے پر زندہ ہے۔ شاد کی شاعری کا بالاستیعاب مطالعہ کرتے ہوئے جو چیز سب سے پہلے قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہے وہ ان کی کثیرالاصواتی اور لہجے کا تنوع ہے۔  شاد کا ایک امتیاز ان کے بعض اشعار کی غیرمعمولی مقبولیت میں بھی مضمرہے۔

     اس بات میں تو کوئی شک نہیںکہ ان کا کوئی شعر ناپختہ جذبات نگاری یا سستی رومانیت یا سنسنی خیزی کے باعث مقبولِ خاص و عام نہیں۔ ان کے کئی درجن اشعار بلاشبہ ہمارے ادبی حافظے کا حصہ ہیں۔شاد کو اگر ان کا جائز مقام ہنوز نہیں ملا تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے کلام کو یکسوئی اور توجہ سے بہت کم پڑھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر توجہ سے ان کی شاعری کامطالعہ کیا جائے تو ان کے آہنگ اور لہجے کا معاملہ ہو یا نئے استعاروں کی تلاش یا رائج مضامین کے سیاق و سباق کو تبدیل کرنے کی بات ہو، ان تمام پہلوؤں کو شاد کی غزل کی انفرادیت اور امتیاز کے اسباب میں شمار کیا جاسکتاہے۔
    شاد کی غزل میں کلاسیکیت کے تقریباً تمام رنگ ملتے ہیں۔ ان کے موضوعات اور مضامین کا انتخاب ہو یا کلاسیکی مسلمات کا تتبع، ان کا تصور کائنات ہو یا زبان و بیان کی طرف ان کے رویّے، ساری چیزیں انھیں اردو کی کلاسیکی شاعری کا حصہ تو بناتی ہی ہیں مگر اس کے ساتھ ہی وہ کلاسیکی شعری روایات میں اپنی حدتک توسیع بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ اکثر روایتی مضامین کو اپناتے تو ضرور ہیں مگر ان میں کوئی نہ کوئی نیاگوشہ بھی ضرور پیدا کرلیتے ہیں یا پھر بعض مقامات پر کسی رائج موضوع کو بڑی حدتک منقلب کردیتے ہیں۔  شاد کی شاعری کا عمل چوںکہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک جاری تھا، اس لیے انہیں ہررنگ اور ہرآہنگ سے استفادہ بھی کرنے کا موقع ملا اور اپنی فنی انفرادیت کے نقوش مرتسم کرنے کا بھی۔ان خصوصیات کی بنا اردو غزل کی تاریخ میں شادؔ بلند مقام پر فائز ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے