ڈرامے کی تعریف
لفظ ڈراما یونانی زبان کے لفظ Draw سے بنا ہے۔ جس کے معنی ’’کر کے دکھانا‘‘ ہے۔ ڈرامے کی ابتداء نقالی سے ہوئی۔ انسان کبھی کبھی کسی کی نقل کرتا ہے۔ ڈرامے میں کرداروں اور مکالموں کے ذریعہ کوئی کہانی پیش کی جاتی ہے۔ ڈرامے کے لیے اسٹیج (Stage) اور منظر بھی ضروری ہے۔ یہ ادب کی ایسی صنف ہے جس میں انسانی زندگی کی حقیقت اور صداقت کو اسٹیج (Stage) پر نقل کے ذریعہ پیش کیا جاتا ہے۔ پہلے ڈرامے Stage پر ہوا کرتے تھے بعد میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور سنیما میں ریکارڈ شدہ ڈرامے پیش کیے جارہے ہیں۔ ڈرامے کے اجزائے ترکیبی میں مرکزی خیال، پلاٹ، کردار نگاری، مکالمے، منظر نگاری اور کشمکش و تصادم وغیرہ۔ اردو کے اہم ڈرامہ نگاروںمیں آغا حشر کاشمیری۔امتیاز علی تاج۔ کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، خواجہ احمد عباس، عصمت چغتائی، اپندرناتھ اشک، مرزا ادیب، راجندر سنگھ بیدی، ریوتی سرن شرما، حیات اللہ انصاری، کرتار سنگھ دگل وغیرہ شامل ہیں۔
ڈرامہ نگار کا تعارف
اظہر افسر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے مشہور ڈرامہ نگار ہیں۔ انہوںنے حیدرآباد کے اخباروں میں بھائی جان کے نام سے ڈرامے لکھے۔بابائے اردو مولوی عبدالحق نے بھی ان کی اصلاحی تحریروںکی تعریف کی۔ان کی جانب سے لکھے گئے کئی ڈرامے ریڈیو پر نشر ہوئے اور اسکولوں اور کالجوں میں اسٹیج کئے گئے۔ان کے ڈراموںکے موضوعات قومی یکجہتی۔سماجی اصلاح اور ادبی شخصیات ہیں۔قومی یکجہتی سے متعلق ان کے مشہورخاکے صدائے جاوداں۔جوئے حیات۔دھرتی کا سورگ۔ تعمیر آرزو اور رات کا کھانہ شامل ہیں۔جن میں انہوں نے پنڈت نہرو کی عظمت کو بیان کیا ہے۔قلی قطب شاہ۔غالب ۔ذوق اور مومن کی زندگیوں پر بھی انہوں نے دلچسپ خاکے اسٹیج کئے۔ریڈیو پر نشر ہونے والے ڈراموں میںمکالموں اور پلاٹ کی اہمیت ہوتی ہے۔ انہیں ریڈیو پر ڈرامے نشر کرنے پر مہارت حاصل تھی۔وہ سامعین کا دل جیت لیتے تھے۔اظہر افسر ریڈیو پر ڈرامے لکھنے والوں میں صف اول کے ڈرامہ نگار شمار کئے جاتے ہیں۔
ڈرامہ موتی کے کردار : موتی:دس سال کا ایک لڑکا۔موتی کی ماں۔انو بھیا۔سترہ برس کے نوجوان۔ پنڈت جی
خلاصہ : اظہر افسر نے ڈرامہ موتی میں گائوں کے ایک بچے کی شرارت کو پیش کیا ہے۔ایک مرتبہ موتی نام کا لڑکا اپنے گھر میں عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے وہ اپنے منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکالنے لگتا ہے۔ دغ ۔دغ۔ دغا۔ ہائو ہائو۔ وہ کہتا ہے کہ میں موتی نہیں ہوں میرا نام غو غو ہے میں ندی والے ببول کے درخت پر رہتا ہوں وہ اپنے آپ کو بھوت کی طرح پیش کرتا ہے۔ ماں پوچھتی ہے کہ موتی تمہیں کیا ہوگیا ہے تب موتی بھوت کی آواز میں کہتا ہے کہ تمہارے بیٹے نے کل شام میرے گھر پر پتھر مارے اور اپنے شریر ساتھیوں سے اینٹیں پھنکوائیں ہیں۔ اب میں تمہارے بیٹے کو نہیں چھوڑوں گا میں ندی والا بھوت ہوں۔ یہ کہہ کر پھر وہ عجیب و غریب آوازیں نکالنے لگتا ہے۔ ماں اپنے بیٹے کی یہ کیفیت دیکھ کر پریشانی سے سر تھام لیتی ہے۔وہ کہتی ہے کہ اب میں کیا کروں کہاں جائوں۔ موتی کہتا ہے کہ کہاں جارہی ہو پہلے میرے کھانے کا انتظام کرو میں بھوکا ہوں۔ماں کھانا لانے جاتی ہے تو موتی کہتا ہے کہ مجھے کھانے میں سیر بھر ببول کی پھلیاں۔آدھ سیر گوکھرو کے کانٹے اور پائو بھر کالی ماش بھیجیں۔ ماں بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہوجاتی ہے۔ وہ ماں کو جلدی سے اپنی پسند کا کھانے کے لیے کہتا ہے۔اسی وقت ایک پنڈت جی وہاں داخل ہوتے ہیں۔موتی پنڈت کو دیکھ کر کہتا ہے کہ میں کسی آدمی سے ملنا نہیں چاہتا۔ مجھے بھوک لگی ہے۔ وہ سامان گرا کر گڑ بڑ کرتا ہے ماں پنڈت سے اس کی بدلی کیفیت سناتی ہے کہ اس پر بھوت کا سایہ ہوگیا ہے۔ موتی پنڈت کو بھی ڈراتا ہے ۔ پنڈت ماں کے کان میں کہتا ہے کہ واقعی اس پر بھوت سوار ہے ۔ اس بار بہت محنت کرنی ہوگی۔ ماں بھوت اتارنے کے لیے ہر طرح کا خرچ ادا کرنے تیار ہوجاتی ہے۔پنڈت کہتا ہے کہ اس کا بھوت اتارنے کے لیے اسے ندی میں پیر پر کھڑے ہوکر سمادھی لگانی ہوگی۔وہ سامان لکھاتا ہے کہ ایک سیر ماش ہو۔سات بڑے بڑے کیلے۔تین سیر مٹھائی اور سترہ روپے۔ماں سب منگانے کا کہتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ ادھر انو نامی ایک نوجوان گھر میں داخل ہوتا ہے۔ ماں اس سے موتی کے بھوت کی کیفیت سناتی ہے۔موتی ماں سے کہتا ہے کہ تم بار بار نئے آدمیوں کو کیوں بلا رہی ہو۔ انو کہتا ہے کہ میں تمہارا بھوت اتارنے آیا ہوں وہ ماں سے کہتا ہے کہ انگیٹھی میں آگ جلا کر لادو۔ اور دو لوہے کی سلاخیں بھی۔ موتی بھوت کے انداز میں چیخنے لگتا ہے۔ ماں آگ اور سلاخیں لاکر پوچھتی ہے کہ بیٹا اس کا کیا کروگے انو کہتا ہے کہ میں گرم سلاخوں کو موتی کی آنکھ میں چبھا دوں گا اس سے موتی کو کچھ نہیں ہوگا بھوت کو تکلیف ہوگی اور وہ بھاگ جائے گا۔پھر گرم کوئلے موتی کے سارے جسم پر پھیرنے ہوں گے میں نے رانی دھوبن کا بھوت ایسے ہی اتارا تھا۔انو ماں سے تیز چھری لانے کے لیے کہتا ہے تاکہ بھوت کے کان کاٹے جائیں۔ماں جب چھری لانے جاتی ہے تو موتی اپنے بھوت بننے کی حرکتیں چھوڑ کر انو کے پیچھے آکھڑا ہوتا ہے۔وہ انو بھیا کہہ کر مخاطب ہوتا ہے۔ وہ دریافت کرتا ہے کہ کیا سچ مچ اس کی آنکھوں میں سلاخ پروئے جائیں گے اور چاقو سے کان کاٹے جائیں گے تب انو کہتاہے کہ بھوت کو بھگانے کے لیے یہ سب کرنا ہوگا پر اس سے موتی کو کچھ نہیں ہوگا تب موتی انو سے کہتا ہے کہ اس نے کہا کہ میں بھوت بننے کا ڈھونگ کر رہا تھا۔اس نے جب رانی دھوبن پر بھوت آنے کی کیفیت سنی تو اس کی طرح ڈھونگ کرنے لگا تھا۔ موتی پوچھتا ہے کہ کیا بھوت ووت کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ماں چھری تیز کر رہی تھی۔ انو پوچھتا ہے کہ بھوت کاڈھونگ رچانے کی ضرورت کیوںپیش آئی تب موتی کہتا ہے کہ پرسوں چاچا گائوں سے آئے تھے۔ میں ان کے ساتھ گائوں جانا چاہتا تھاپر ماں نے روک دیا۔میں دو چار دن رہ کر واپس آجانا چاہتا تھا پر ماں نے نہیں مانا اور سمجھی کے میںبہت دن وہاں رہ جائوں گا۔ وہ انو سے کہتا ہے کہ کسی طرح چاچا کے پاس گائوں جانے کی اجازت دلا دو۔وہ موتی سے وعدہ لیتا ہے کہ آئیندہ کبھی ایسی شرارت نہیں کرے گا۔ اور اس سال محنت کرکے ساری کلاس میں اول آئے گا۔موتی وعدہ کرتا ہے ۔ انو کے کہنے پر وہ پھر سے بھوت بن جاتا ہے۔ اور عجیب و غریب آوازیں نکالنے لگتا ہے وہ انو سے سوال جواب کرتا ہے انو سلاخیں گرم کرکے جیسے ہی موتی کے قریب لاتا ہے بھوت کہتا ہے کہ ٹہرو میں ایک شرط پر اس لڑکے سے ہٹ جائوں گا اس لڑکے نے مجھے بڑی تکلیف دی ہے۔ میرا غصہ ٹھنڈا ہونے میں چار دن لگیں گے ۔چار دن تک وہ اس مقام پر نہ رہے کہیں اور بھیج دو۔ انو کچھ سوچتی ہوئے چٹکی بجاتا ہے اور ماں جی سے کہتا ہے کہ اس کو کیوں نہ چاچا جی کے گائوں بھیج دیا جائے چار دن کی تو بات ہے پھر بھوت خود بہ خود اتر جائے گا۔ ماں ٹھیک ہے کہتی ہے یہ سن کر موتی چکر کھا کر نیچے گرجاتا ہے۔ ماں اسے موتی موتی کہہ کر جگاتی ہے۔ موتی جاگ کر ہوش میں آجاتا ہے۔ ماں انو سے کہتی ہے کہ تم بھوتوں کو بھگانا خوب جانتے ہو۔پنڈت جی نے تو بیس روپئے مانگے تھے۔ ماں انو کو کچھ روپے دینے کی کوشش کرتی ہے۔ انو کہتا ہے کہ میں ان روپوں کا کیا کروں گا۔ میں ان سے موتی کو چاچا کے گائوں چھوڑ آئوں گا اس کے ساتھ ہی ڈرامے کا اختتام عمل میں آتا ہے۔
مرکزی خیال: اظہر افسر نے ڈرامہ موتی میں گائوں کے ایک بچے کی دلچسپ شررارت کو پیش کیا ہے۔ جب کہ وہ بھوت کا ڈھونگ رچاتا ہے۔ انو کی جانب سے بھوت کو بھگانے کی کوشش کے دوران اظہر افسر نے یہ واضح کیا کہ بھوت پریت کچھ نہیں ہوتے یہ لوگوں کا وہم ہے اور گائوں کے پنڈت بھوت کے نام پر عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ یہ ڈرامہ بچوں کی اصلاح کے لیے لکھا گیا۔
فرہنگ
بھدی : بھونڈی۔خراب
بھوت : ایک قسم کی خیالی مخلوق جس سے لوگ ڈرتے ہیں۔
سیر : کلو
اول جلول : دیوانی حرکتیں
اسٹیج : ڈرامہ کرنے کا مقام
ٹھٹھے : زور زور سے ہنسنا
اتار کا سامان : بھوت اتارنے کا سامان
چمٹا لایا : ساتھ لانا
انگیٹھی : چولہا
ڈھونگ : جھوٹا روپ دھارنا
سوالات
I مندرجہ ذیل عبارت کی بحوالہ متن تشریح کیجیے۔
1۔’’دو سیر ببول کی پھلیاں۔آدھ سیر گوکھرو کے کانٹے اور پائو بھر ماش کالی ماش بھیجیں‘‘
حوالہ: یہ عبارت ڈرامہ ’’موتی‘‘ سے لی گئی ہے۔ جسے اظہر افسر نے لکھا ہے۔
تشریح: اظہر افسر نے اس عبارت میں بھوت بنے موتی کی زبانی کھانا مانگنے کا ذکر کیا ہے۔ موتی ماں سے کھانامانگتا ہے۔ ماںکھانا لانے جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے لیے دو سیر ببول کی پھلیاں۔ آدھ سیر گوکھرو کے کانٹے اور پائو بھر کالی ماش۔ جس طرح داستانوں میں بھوت پریت کے قصے ہوتے ہیں ان سے متاثرہوکر موتی کھانے کے لیے اس طرح کی فرمائش کرتا ہے۔موتی کے اس بدلے انداز سے ماں پریشان ہوجاتی ہے۔
مرکزی خیال: ڈرامہ موتی میں موتی بھوت کا ڈھونگ رچاتاہے۔ اورماں سے بھوتوں کی طرح کھانے کے لیے عجیب و غریب چیزوںکی فرمائش کرتا ہے جس پر ماں پریشان ہوجاتی ہے۔
2۔موتی اچھا ہوجائے گا مگر مجھے ندی میں ایک پیڑ پر کھڑے ہو کر سمادھی لگانی ہوگی۔
حوالہ: یہ عبارت ڈرامہ ’’موتی‘‘ سے لی گئی ہے۔ جسے اظہر افسر نے لکھا ہے۔
تشریح: اظہر افسر نے اس عبارت میں ڈرامہ موتی میں پنڈت جی کی جانب سے موتی کا بھوت اتارنے کی کاروائی کا ذکرکیا ہے۔ پنڈت جی اپنے اندازمیںکہتے ہیں کہ موتی کا بھوت اتارنے کے لیے ایک سیر ماش۔سات بڑے بڑے کیلے۔تین سیر مٹھائی ۔سترہ روپے لگیں گے اور انہیں دریا میں ایک پیر پر کھڑے ہوکر سمادھی لگانی ہوگی۔موتی کی ماں سب کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ پنڈت جلدی سامان لانے کا کہہ کر چلا جاتاہے۔
مرکزی خیال: اس عبارت میں اظہر افسر نے گائوں کے پنڈتوں کے توہمات کا ذکر کیا ہے جو بھولے بھالے ان پڑھ گنوار گائوں والوں کو اپنی چالاکی سے لوٹتے رہتے ہیں۔
3۔ ایک ایک کرکے موتی کے دونوں کان کاٹنے پڑیں گے۔ نہ نہ تم ڈرو نہیں۔ یہ جو کان تم دیکھ رہی ہو موتی کے نہیں۔ بھوت کے ہیں۔
حوالہ: یہ عبارت ڈرامہ ’’موتی‘‘ سے لی گئی ہے۔ جسے اظہر افسر نے لکھا ہے۔
تشریح: اظہر افسر نے اس عبارت میںموتی کا بھوت اتارنے انو بھیا کی کوچالاکی کا ذکر کیا ہے۔انو ماںسے کہتا ہے کہ موتی کا بھوت اتارنے کے لیے گرم گرم کوئلوں پر سلاخیں گرم کرنا ہوگا گرم سلاخیں بھوت کی آنکھوں میں ڈالی جائیں گی اس سے موتی کو کچھ نہیںہوگا بھوت کو سزا ملے گی۔ تیز چھری سے موتی کے کان کاٹنے ہوگے انو کہتا ہے کہ یہ موتی کے کان نہیں بھوت کے کان ہیں۔ماںکی جانب سے دریافت کئے جانے پر انو کہتا ہے کہ اس سے موتی کو کچھ نہیں ہوگا۔
مرکزی خیال: انو موتی کا بھوت اتارنے کے لیے گرم سلاخوں کو موتی کی آنکھوںمیں پرونے اور تیزی چھری سے موتی کے کان کاٹنے کی بات کرتاہے تو ماں ڈر جاتی ہے کہ بیٹے کا کچھ نقصان تو نہ ہو لیکن انو کہتا ہے کہ موتی کوکچھ نہیںہوگا ۔ بھوت کو سزا ملے گی۔
اضافی متن کے حوالے
4۔اب میں تمہارے بیٹے کو نہیں چھوڑوں گا۔ میں ندی والا بھوت ہوں۔میرا نام غو غو ہے۔
حوالہ: یہ عبارت ڈرامہ ’’موتی‘‘ سے لی گئی ہے۔ جسے اظہر افسر نے لکھا ہے۔
تشریح: اظہر افسر نے اس عبارت میںموتی کی جانب سے بھوت بن کر ماں کو پریشان کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک دن موتی گھر میں عجیب و غریب آوازیں نکالنے لگتا ہے ۔ ماں کے پوچھنے پر کہتا ہے کہ میں ندی والا بھوت ہوں ۔تمہارے بیٹے نے کل شام میرے گھر پر پتھر مارے اور اپنے شریر ساتھیوں سے اینٹیں پھنکوائیں۔ میں تمہارے بیٹے کو نہیں چھوڑوں گا۔میرا نام غو غو ہے۔ اس طرح وہ بھوت کی آوازیں نکالنے لگتاہے۔
مرکزی خیال: موتی بھوت کا ڈھونگ کرتا ہے اور ماں کے سامنے ندی والے بھوت کی آوازیں نکال کر ماں کو پریشان کرتا ہے۔
5۔ میں نے رانی دھوبن کا بھوت اسی طرح اتارا تھا
حوالہ: یہ عبارت ڈرامہ ’’موتی‘‘ سے لی گئی ہے۔ جسے اظہر افسر نے لکھا ہے۔
تشریح: اظہر افسر نے اس عبارت میںموتی کا بھوت اتارنے انو بھیا کی کوشش کا ذکر ہوتا ہے انو بھیا گرم کوئلے ‘سلاخیں اور تیز چاقو منگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گرم سلاخیں موتی کی آنکھ میں پروئی جائیں گی۔ اس کی پیٹھ پر گرم کوئلے بچھائے جائیں گے اور اس کے کانوں کو تیز چاقو سے کاٹا جائے گا اس سے موتی کو کچھ نہیں ہوگا۔ میں نے رانی دھوبن کا بھوت اسی طرح اتارا تھا۔
مرکزی خیال: انو بھیا کو اندازہ تھا کہ موتی ڈھونگ رچارہا ہے اس لیے اسے ڈرانے انہوں نے گرم سلاخوں کوئلوں اور تیز چھری کو منگوایا ۔ موتی ڈر کر اپنی اصلیت ظاہر کردیتا ہے۔
6۔ چار دن تک میرا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوگا۔ چار دن تک وہ اس مقام پر نہ رہے اسے کہیں اور بھیج دو۔
حوالہ: یہ عبارت ڈرامہ ’’موتی‘‘ سے لی گئی ہے۔ جسے اظہر افسر نے لکھا ہے۔
تشریح: اظہر افسر نے اس عبارت میںبھوت کی شکل میں موتی کی خواہش کا ذکر کیا گیا ہے۔موتی انو بھیا کے سامنے اصل بات کہہ دیتا ہے کہ ماں اسے چاچا کے گائوں جانے سے منع کررہی ہے اس لیے وہ بھوت کا ڈھونگ رچانے پرمجبور ہوا ہے۔ وہ انو سے فرمائش کرتا ہے کہ کسی طرح چاچاکے گائوں جانے کا انتظام کردو تب انو اسے پھر سے بھوت بن جانے اور چار دن تک گائوں جانے کا ڈھونگ کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ ماںجب تیز چھری لاتی ہے تب موتی کہتا ہے کہ اگر موتی کو چار دن تک گائوں میں چھوڑ دیا جائے تو میں چلا جائوں گا۔ اس طرح اظہر افسر نے دلچسپ طریقے سے بھوت کی کہانی کو پیش کیا۔
مرکزی خیال:موتی اور انو مل کر گائوںجانے کا منصوبہ تیار کرتے ہیں۔ اور انو کے کہنے پر موتی بھوت کی آواز میں کہتا ہے کہ اگر وہ چار دن تک گائوں میں رہے تو بھوت اتر جائے گا۔
ٰٰII پانچ سطروں میں جواب لکھیے۔
1۔ موتی نے بھوت کا ڈھونگ کرتے ہوئے کیا کیا حرکتیں کیں۔
جواب: اظہر افسر نے ڈرامہ’’موتی‘‘ میں ایک دس سالہ دیہاتی لڑکے موتی کی شرارت کو پیش کیا ہے۔جو ندی والے بھوت کا ڈھونگ رچاتے ہوئے گھر میں عجیب و غریب حرکتیںکرتا ہے۔ایک مرتبہ موتی نام کا لڑکا اپنے گھر میں عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے وہ اپنے منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکالنے لگتا ہے۔ دغ ۔دغ۔ دغا۔ ہائو ہائو۔ وہ کہتا ہے کہ میں موتی نہیں ہوں میرا نام غو غو ہے میں ندی والے ببول کے درخت پر رہتا ہوں وہ اپنے آپ کو بھوت کی طرح پیش کرتا ہے۔ ماں پوچھتی ہے کہ موتی تمہیں کیا ہوگیا ہے تب موتی بھوت کی آواز میں کہتا ہے کہ تمہارے بیٹے نے کل شام میرے گھر پر پتھر مارے اور اپنے شریر ساتھیوں سے اینٹیں پھنکوائیں ہیں۔ اب میں تمہارے بیٹے کو نہیں چھوڑوں گا میں ندی والا بھوت ہوں۔ یہ کہہ کر پھر وہ عجیب و غریب آوازیں نکالنے لگتا ہے۔ ماں اپنے بیٹے کی یہ کیفیت دیکھ کر پریشانی سے سر تھام لیتی ہے۔
2۔ موتی نے غذا کے طور پر ماں سے کون کونسی چیزیں طلب کیں۔
جواب: اظہر افسر نے ڈرامہ’’موتی‘‘ میں ایک دس سالہ دیہاتی لڑکے موتی کی شرارت کو پیش کیا ہے۔جو ندی والے بھوت کا ڈھونگ رچاتے ہوئے گھر میں عجیب و غریب حرکتیںکرتا ہے۔ بھوت کی آوازیں نکالنے کے بعد وہ ماں سے بھوک لگنے اور کھانا لانے کے لیے کہتا ہے۔ ماں جب کھانا لانے کا کہتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ کیا لارہی ہو۔ میرے لیے دو سیر ببول کی پھلیاں۔ آدھ سیر گوکھرو کے کانٹے اور پائو بھر کالی ماش۔ وہ کھانے میں نیم کی چھال اور کیلوں کی فرمائش بھی کرتاہے۔ جس طرح داستانوں میں بھوت پریت کے قصے ہوتے ہیں ان سے متاثرہوکر موتی کھانے کے لیے اس طرح کی فرمائش کرتا ہے۔موتی کے اس بدلے انداز سے ماں پریشان ہوجاتی ہے۔
3۔ موتی کا بھوت اتارنے پنڈت جی نے کیا طریقہ بتایا۔
جواب: اظہر افسر نے ڈرامہ’’موتی‘‘ میں ایک دس سالہ دیہاتی لڑکے موتی کی شرارت کو پیش کیا ہے۔جو ندی والے بھوت کا ڈھونگ رچاتے ہوئے گھر میں عجیب و غریب حرکتیںکرتا ہے۔جب ماں پنڈت جی سے موتی کا بھوت اتارنے کی بات کرتی ہے تو پنڈت جی کہتے ہیں کہ اب کی بار زیادہ محنت کرنا ہوگا۔پنڈت جی اپنے اندازمیںکہتے ہیں کہ موتی کا بھوت اتارنے کے لیے ایک سیر ماش۔سات بڑے بڑے کیلے۔تین سیر مٹھائی ۔سترہ روپے لگیں گے اور انہیں دریا میں ایک پیر پر کھڑے ہوکر سمادھی لگانی ہوگی۔موتی کی ماں سب کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ پنڈت جلدی سامان لانے کا کہہ کر چلا جاتاہے۔
4۔ انو بھیا نے موتی کا بھوت اتارنے کے لیے کیا کیا چیزیں منگائیں۔
جواب: اظہر افسر نے ڈرامہ’’موتی‘‘ میں ایک دس سالہ دیہاتی لڑکے موتی کی شرارت کو پیش کیا ہے۔جو ندی والے بھوت کا ڈھونگ رچاتے ہوئے گھر میں عجیب و غریب حرکتیںکرتا ہے۔پنڈت کے جانے کے بعد انو بھیا گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ موتی کی حرکت کو بھانپ جاتے ہیں اور ماں جی سے کہتے ہیں کہ موتی کا بھوت اتارنے کے لیے انو ماںسے کہتا ہے کہ موتی کا بھوت اتارنے کے لیے گرم گرم کوئلوں پر سلاخیں گرم کرنا ہوگا گرم سلاخیں بھوت کی آنکھوں میں ڈالی جائیں گی اس سے موتی کو کچھ نہیںہوگا بھوت کو سزا ملے گی۔ تیز چھری سے موتی کے کان کاٹنے ہوگے انو کہتا ہے کہ یہ موتی کے کان نہیں بھوت کے کان ہیں۔ماںکی جانب سے دریافت کئے جانے پر انو کہتا ہے کہ اس سے موتی کو کچھ نہیں ہوگا۔
III ایک لفظ یا جملے میں جواب دیجئے۔
1۔ موتی کی عمر کیا ہے۔
جواب: دس سال
2۔ غو غو کس کا نام ہے۔
جواب: موتی بھوت کی آوازیں نکالتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ ندی والا بھوت غوغوہے۔
3۔ اظہر افسر کا پورا نام لکھیے۔
جواب: اظہر افسر کا پورانام مرزا اظہر جان بیگ جانِ جاناں ہے۔
4۔ اظہر افسر اخبار و رسائل میں کس نام سے لکھا کرتے تھے۔
جواب: بھائی جان
5۔ اظہر افسر کے کسی خاکے کا نام لکھیے۔
جواب: دھرتی کا سورگ
IV پندرہ سطروں میں جواب لکھیے۔
1۔ ڈرامہ موتی کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔
2۔ موتی کا بھوت اتارنے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے گئے۔
جواب: (جواب کے لیے ڈرامے کا خلاصہ پڑھیں)
3۔ اظہر افسر کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں۔
جواب: (جواب کے لیے ڈرامہ نگار کے حالات زندگی پڑھیں)
0 تبصرے