Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

محبوب حسین جگر(خاکہ) یوسف ناظم

خاکے کی تعریف
     خاکہ ایسے مضمون کو کہتے ہیں جس میں شخصیتوں کی لفظی تصویریں اس طرح براہ راست کھینچی جاتی ہیں کہ ان کے ظاہر اور باطن دونوں قاری کے ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پڑھنے والے نے نہ صرف قلمی چہرہ دیکھا ہے بلکہ خود شخصیت کو دیکھا بھالا ہو۔خاکہ نگاری کا مقصد سماجی زندگی کی اہم شخصیات کے احوال کو محفوظ رکھنا ہے۔ خاکہ نگار کا اسلوب نگارش خاکے کو دلچسپ بناتا ہے۔ اور اس کی بدولت کسی شخصیت کے مختلف کرداروں سے واقفیت ہوتی ہے۔اردو میں مرزا فرحت اللہ بیگ۔مولوی عبدالحق۔رشید احمد صدیقی۔خواجہ حسن نظامی اور دیگر ادیبوں نے شاہکار خاکے لکھے۔نصابی کتاب میں یوسف ناظم کا ایک خاکہ محبوب حسین جگر کے بارے میں ہے۔    
مصنف کا تعارف
سید محمد یوسف ناظم(1918-2009) اردو کے مشہور مزاح نگار گزرے ہیں۔18نومبر1918ء کو جالنہ میں پیدا ہوئے۔اورنگ آباد سے انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ریاست حیدرآباد کے محکمہ لیبر میں مترجم کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔اور1947ء میں لیبر آفسر مقرر ہوئے۔ریاستوں کی تشکیل جدیدکے بعد1957ء میں ان کی خدمات حکومت مہاراشٹرا کے حوالے کی گئیں۔1976ء میں بہ حیثیت ڈپٹی لیبر کمشنر وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔انہوں نے مزاح نگاری کو اپنا میدان بنایا۔ان کی تحریروں میں بے ساختگی ‘روانی اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔وہ چھوٹے اور معمولی روزمرہ کے واقعات سے مزاح کا پہلو نکال لیتے ہیں۔انسانوں کی معمولی کمزوریوں کو بھی انہوں نے مزاح کا پہلو بنایا ہے۔ان کے تحریر کردہ مزاحیہ کالم اور مضامین ملک کے اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے۔کیف وکم۔فٹ نوٹ۔دیوار سے۔زیر غور۔فقط۔البتہ۔بالکلیات۔فی الحال۔فی الفور۔فی زمانہ۔فی البدیہہ اور من جملہ ان کے مضامین کے مجموعے ہیں۔ان کے خاکوں کے مجموعے سائے ہم سائے۔ذکر ِ خیر اور علیک سلیک ہیں۔انہوںنے ایک سفر نامہ’’ امریکہ میری عینک سے‘‘ تحریر کیا۔اور بچوں کے ادب کے لیے پانچ کتابیں بھی لکھیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں مہاراشٹرا‘ہریانہ اور مدھیہ پردیش کی اردو اکیڈمیوں نے انہیں ایوارڈز دئیے۔ان کی شخصیت اور کارناموں پر ملک کے کئی ادبی رسائل نے خاص نمبر گوشوارے شائے کئے۔ان کا انتقال23جولائی2009ء کو ممبئی میں ہوا۔
خلاصہ
    سید محمد یوسف ناظم(1918-2009) اردو کے مشہور مزاح نگار و خاکہ نگار گزرے ہیں۔انہوں نے روزنامہ سیاست حیدرآباد کو پروان چڑھانے والے اہم صحافی جناب محبوب حسین جگر کی شخصیت کو اجاگر کرتا ایک خاکہ لکھا ہے۔خاکے کے آغاز میں یوسف ناظم لکھتے ہیں کہ ہندوستا ن میں دو جگرؔ مشہور ہوئے ایک جگر مرادآبادی دوسرے محبوب حسین جگرؔ۔ جگرؔ مراد آبادی اپنی شاعری کے لیے مشہور ہوئے۔ جب کہ جگرؔ صاحب صحافتی خدمات کے لئے۔ انہوں نے مزاحیہ انداز میں لکھا کہ جگرؔ صاحب نے صرف تخلص رکھا شاعری نہیں کی۔مزاحیہ انداز میں انہوںنے مزید لکھا کہ حیدرآباد میں جگرؔ مراد آبادی نے کلام تو سنایا لیکن محبوب حسین جگرؔ نے داد وصول کی۔جگرؔ مراد آبادی چونکہ ڈوب کر کلام سناتے تھے اس لئے انہیں پتہ بھی نہیں چلا کہ ان کے حصے کی داد کون لوٹ رہا۔یہ شائد1941ء کی بات ہے جب جگرؔ مراد آبادی نے عثمانیہ یونیورسٹی میں کلام سنایا تھا اور محبوب حسین جگر وہاں موجود تھے۔ اس کے بعد دونوں نے احتیاط کی۔جگرؔ صاحب کا تعارف کراتے ہوئے یوسف ناظم لکھتے ہیں کہ ان کی جگرؔ صاحب سے ملاقات عثمانیہ یونیورسٹی میں ہوئی تھی جب وہ اورنگ آباد سے تقریری مقابلے میں شرکت کے لیے عثمانیہ یونیورسٹی آئے تھے۔جگرؔ صاحب کے بھائی ابراہیم جلیس گلبرگہ سے نمائیندگی کر رہے تھے۔جگرؔ صاحب اس تقریری مقابلے کے نگران تھے۔ ایک دن پہلے انہوں نے میری ریہرسل کرائی اور میری تقریر کو پسند کرتے ہوئے کہا کہ انعام تم ہی جیتوگے۔ دوسرے دن ہوٹنگ رہی لیکن جو ثابت قدم رہا اس نے ہی انعام جیتا۔اس کے بعد میں نے کبھی تقریری مقابلے میں حصہ نہیں لیا۔
    یوسف ناظم نے آگے لکھا کہ محبوب حسین جگرؔ اور عابد علی خاں میں دوستی ہوئی ۔عابد علی خاں نواب تھے اور ہاسٹل میں نہیں رہتے تھے لیکن دونوں کی دوستی کی شہرت سارے شہر میں تھی اور جب 1948ء میں عابد علی خان نے روزنامہ سیاست اخبار جاری کیا تو جگرؔ صاحب عابد علی خاں کے دست راست تھے۔اردو کے اکثر شعرا ظفر علی خان۔مولانا محمد علی جوہر۔حسرت موہانی۔عبدالماجد دریابادی۔جوس وغیرہ شاعر بھی تھے اور صحافی بھی ۔ صرف سیاست وہ اخبار تھا جس کے مدیر اور نائب مدیر دونوں شاعر نہیں تھے۔سیاست نے بہت ترقی کی اور دونوں ’’سید برادران‘‘ کے نام سے اردو صحافت میں مشہور ہوئے۔
    یوسف ناظم محبوب حسین جگرؔ صاحب کی روزنامہ سیاست کے لیے خدمات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ دفتر میں کبھی کرسی پر سیدھے بیٹھے نہیں ہمیشہ جھکے رہتے اور کچھ نہ کچھ لکھتے اور تصحیح کرتے رہتے تھے۔انہوںنے شائد ہی کبھی فائونٹین پن استعمال کیا ہو۔ہمیشہ ان کے ہاتھ میں سرخ و سیاہ پنسل ہوتی جس سے وہ رف کاغذ پر لکھتے اور خبروں کی ایڈیٹنگ کرتے رہتے تھے۔اخبار کا دس فیصد کاغذ شائد ہی وہ استعمال کرتے ہوں گے۔ وہ مضامین کو بڑی گہرائی سے پڑھتے اور غیر ضروری چیزیں قلم زد کرتے رہتے تھے۔ شائد ہی کوئی تحریر ان کے قلم سے بچی ہو۔یوسف ناظم نے عابد علی خاں سے معاوضے کی بات پوچھی تو انہوںنے جواب دیا کہ جگرؔ صاحب سے کہیے۔لوگ عابد علی خاں سے تو نظر ملا کر بات کرلیتے تھے لیکن جگرؔ صاحب سے نظر ملا کر بات کرنا مشکل ہوتا تھا۔ دفتر میں جگرؔ صاحب کا ڈر سب پر طاری رہتا تھا۔ حیدرآباد میں زور صاحب اور شاذ تمکنت کو میں نے بٹوہ استعمال کرتے دیکھا لیکن جگرؔ صاحب بٹوے کے ساتھ اپنے پان کھانے کے شوق سے بھی جانے جاتے ہیں۔ شاذؔ کے لباس پر پان کے دھبے اور ان کی پان کھا کر تھوکتے رہنے کی عادت مشہور تھی۔لیکن جگرؔ صاحب پان بڑی نفاست سے کھاتے تھے اور جب بھی کوئی شناسا آتا کھڑے ہو کر اس سے گلے ملتے تھے۔لیکن گلے ملنے والے کو اندازہ ہوجاتا کہ وہ کتنے دبلے ہوگئے ہیں۔مضمون اور خبروں کی تصحیح کے بارے میں بڑے سخت تھے اگر ایک لفظ پر بھی نقطہ کم رہے تو وہ لفظ کو نکال کر مضمون کو ہی چھوٹا کردیتے تھے۔وہ پہلے تصحیح کرتے بعد میں مضمون پڑھتے تھے۔یوسف ناظم جگرؔ صاحب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اکثر صحافیوں کو اچھے قلم جمع کرنے کا شوق تھا لیکن جگرؔ صاحب نے ہمیشہ لوگوں کے قلم کے نتیجہ فکر کو اہمیت دیتے۔ایسی فکر بہت کم صحافیوںمیں دیکھی گئی۔ جگرؔ صاحب اور روزنامہ سیاست دونوں نے کافی شہرت حاصل کی۔
مرکزی خیال:    اس خاکے میں یوسف ناظم نے سیاست اخبار کے اولین صحافی نائب مدیر اور اردو اخبار کو ساری دنیا میں ترقی دلانے والے جناب محبوب حسین جگرؔ کی شخصیت کے کچھ گوشے بیان کئے۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جگرؔ صاحب اپنے پیشے سے کام رکھنے والے صحافی تھے اور اپنی اصول پسندی کے لیے جانے جاتے تھے۔

فرہنگ

    مستغنی        :    بے نیاز۔ بے فکر
    داد        :    تعریف
    اقامت خانہ    :    ٹہرنے کی جگہ۔ہاسٹل
    بین کلیاتی        :    کئی کالجوںکے درمیان
    ہوٹنگ        :    شور شرابہ
    دست راست    :    قریبی دوست
    فیاض        :    کھلے دل کے۔سخی
    فریق ثانی        :    سامنے والا۔دوسرا دوست
    کم سخن        :    کم بات کرنے والا۔ خاموش
    گوشہ نشیں        :    ایک کونے میں بیٹھ جانے والا۔ بے کار
    تصحیح        :    کسی تحریر کی غلطیوں کو درست کرنا
    نتیجہ قلم        :    لکھنے کا نتیجہ

سوالات

I    مندرجہ ذیل عبارت کی بحوالہ متن تشریح کیجئے۔

    1۔    دہ ہم تخلص لوگوں میں اتنا بھائی چارہ تھا کہ خاص طور سے شاعری کے معاملے میں کوئی غیریت نہیں برتی جاتی تھی‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت یوسف ناظم کے تحریر کردہ خاکہ’’محبوب حسین جگرؔؔ سے لی گئی ہے۔
تشریح:    اس عبارت میںیوسف ناظم نے ہندوستان کی دو مشہور شخصیتوں جگرؔ مراد آبادی اور محبوب حسین جگرؔ کے بارے میں لکھا کہ حیدرآباد میں جب جگرؔ مراد آبادی شعر سناتے اور محفل میں محبوب حسین جگرؔ ہوتے تو وہ داد وصول کرتے۔ جگرؔ مراد آبادی کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔ وہ دور باہمی تعلقات کا تھا۔ جگرؔ مراد آبادی نے اتنی شاعری کی کہ اگر محبوب حسین جگرؔ ان کی داد وصول کرتے تو کوئی فکر کی بات نہیں تھی۔ مزاحیہ انداز میں یوسف ناظم نے ہندوستان کے دو جگرؔ کا تعارف کرایا ہے۔
مرکزی خیال:    یوسف ناظم نے ہندوستان کے دو جگرؔ کا تعارف کرایا اور کہا کہ ایک شعر کہتا تھا تو دوسرا داد وصول کرتا تھا اور یہ باہمی تعلقات کی وجہہ سے تھا۔
    2۔    ’’صرف سیاست وہ اخبار تھا۔ جس کے مدیر اور نائب مدیر دونوں غیر شاعر تھے‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت یوسف ناظم کے تحریر کردہ خاکہ’’محبوب حسین جگرؔؔ سے لی گئی ہے۔
تشریح:    اس عبارت میںیوسف ناظم نے جناب عابدعلی خاں صاحب کی جانب سے حیدرآباد میں روزنامہ سیاست کے اجراء کی طرف اشارہ کیا ہے۔ عابد علی خاں صاحب اور جگرؔ صاحب کی دوستی حیدرآباد میں مثالی تھی۔یوسف ناظم نے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ جب 1948ء میں عابد علی خان نے روزنامہ سیاست اخبار جاری کیا تو جگرؔ صاحب عابد علی خاں کے دست راست تھے۔اردو کے اکثر شعرا ظفر علی خان۔مولانا محمد علی جوہر۔حسرت موہانی۔عبدالماجد دریابادی۔جوشؔ وغیرہ شاعر بھی تھے اور صحافی بھی ۔ صرف سیاست وہ اخبار تھا جس کے مدیر اور نائب مدیر دونوں شاعر نہیں تھے۔سیاست نے بہت ترقی کی اور دونوں ’’سید برادران‘‘ کے نام سے اردو صحافت میں مشہور ہوئے۔
مرکزی خیال:  سیاست اخبار کے لیے جگرؔ صاحب نے اپنی زندگی لگادی اور اردو صحافت کی تاریخ میں عابد علی خاں اور محبوب حسین جگر کی دوستی مثالی رہی۔ دونوں شاعر نہیں تھے لیکن بلند پایہ صحافی تھے۔
    3۔طویل مضمون کو مختصر کرنا تو سبھی کو آتا ہے لیکن مخصر مضمون کو مختصر کرنا صرف محبوب حسین جگرؔ کا حصہ ہے‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت یوسف ناظم کے تحریر کردہ خاکہ’’محبوب حسین جگرؔؔ سے لی گئی ہے۔
تشریح:    اس عبارت میںیوسف ناظم نے محبوب حسین جگرؔ کی مضامین اور خبروں کو کانٹ چھانٹ کرکے مختصرکرنے کی غیر معمولی صلاحیت کا ذکر کیا ہے کہ وہ ادارت میں بڑے ماہر تھے۔ اپنے ہاتھ میں ہمیشہ سرخ و سیاہ پنسل ہوتی تھی اور بڑی مہارت سے مضامین اور خبروں کو مختصر کردیتے لیکن اصل بات کو برقرار رکھتے ۔ جو لوگ جگرؔ صاحب کو جانتے ہیں وہ ان کی اس صلاحیت سے بخوبی واقف ہیں۔
مرکزی خیال: جگرؔ صاحب فن ادارت میںماہر تھی اور بڑی فنکاری سے مضامین کو مختصر کردیتے تھے۔
اضافی متن کے حوالے
    4’’یہ ثابت قدمی کا انعام تھاتقریر کا نہیں۔ کیوں کہ تقریر تو کسی کی سنائی ہی نہیں دی‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت یوسف ناظم کے تحریر کردہ خاکہ’’محبوب حسین جگرؔؔ سے لی گئی ہے۔
تشریح:    اس عبارت میںیوسف ناظم نے عثمانیہ یونیورسٹی میں اپنے تقریری مقابلے میں حصہ لینے کا واقعہ بیان کیا ہے۔ یوسف ناظم اورنگ آباد سے عثمانیہ یونیورسٹی میں تقریری مقابلے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ اس وقت جگرؔ صاحب یونیورسٹی کے اقامت خانہ میں رہتے تھے انہوں نے ایک دن قبل ان کی ریہرسل کرائی اور کہا کہ مقابلہ تم ہی جیتوگے۔ دوسرے دن ہوٹنگ بہت ہوئی لیکن جو ثابت قدم رہا اسے ہی کامیاب سمجھا گیا۔اس طرح انہوں نے جگرؔ صاحب سے اپنی پہلی ملاقات کا حال بیان کیا ہے۔
مرکزی خیال:  یوسف ناظم نے جگرؔ صاحب سے پہلی ملاقات کا حال بیان کیااور ان کی جانب سے حوصلہ افزائی کو یاد کیا۔
    5۔    محبوب حسین جگرؔ کو میں نے دفتر سیاست میں کبھی سیدھی کرسی پر بیٹھے نہیں دیکھا۔ ان کی کرسی کا زاویہ ہمیشہ کج رہا۔
حوالہ:    یہ عبارت یوسف ناظم کے تحریر کردہ خاکہ’’محبوب حسین جگرؔؔ سے لی گئی ہے۔
تشریح:    اس عبارت میںیوسف ناظم نے دفتر سیاست میں جگرؔ صاحب کے ہمیشہ مصروف رہنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔جگرؔ صاحب کافی محنتی تھے ۔یہی وجہہ ہے کہ دفتر سیاست میں کبھی وہ کرسی پر آرام سے نہیں بیٹھے۔ ہمیشہ کام کرتے رہتے تھے۔یہ کام کی وجہہ ہے کہ وہ کافی دبلے تھے۔اور انہوںنے اپنی ساری زندگی دفتر سیاست کی خدمت میں لگادی۔
مرکزی خیال:   جگرؔ صاحب نے صحافتی خدمات کی اعلیٰ مثال پیش کی اور اپنے خون جگر سے سیاست اخبار کو عالمی معیار کا اردو اخبار بنایا۔    
    6۔    محبوب حسین جگرؔ نے ہمیشہ لوگوںکے نتیجہ قلم کو اہمیت دی اور یہ دیکھا کہ اس میں’’فکر ‘‘ کا عنصر ہے یا نہیں‘‘۔
حوالہ:    یہ عبارت یوسف ناظم کے تحریر کردہ خاکہ’’محبوب حسین جگرؔؔ سے لی گئی ہے۔
تشریح:    اس عبارت میںیوسف ناظم نے جگرؔ صاحب کی شخصیت کی ایک خوبی بیان کی ہے کہ انہیں دیگر صحافیوں کی طرح اچھے قلم جمع کرنے کا شوق نہیں تھا بلکہ وہ قلمکاروں کے قلم سے نکلی ہوئی تحریر کے نتیجے پر غور کرتے تھے قلم پر نہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی صحافت کی خدمت کرتے ہوئے گزاری اور اپنی صلاحیتوں سے اردو صحافت کانام روشن کیا۔ ان کے لکھے ہوئے اداریے فکر انگیز ہوا کرتے تھے اور انہوں نے اپنی رہبری سے دوسرے صحافیوں کی بھی تربیت کی۔یہی وجہہ ہے کہ آج بھی حیدرآباد کا خبار روزنامہ سیاست ساری دنیا میں مشہور ہے۔

II    پانچ سطروں میں جواب لکھیے۔

    1۔    تخلص جگرؔ کے بارے میں مصنف کا کیا خیال ہے۔

جواب:    یوسف ناظم نے جگرؔ تخلص کے بارے میںلکھا کہ ہندوستان میں دو جگرؔ مشہور ہوئے۔ایک جگرؔ مراد آبادی اور دوسرے محبوب حسین جگر۔ؔان دونوں کے بارے میں لکھا کہ حیدرآباد میں جب جگرؔ مراد آبادی شعر سناتے اور محفل میں محبوب حسین جگرؔ ہوتے تو وہ داد وصول کرتے۔ جگرؔ مراد آبادی کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔ وہ دور باہمی تعلقات کا تھا۔ جگرؔ مراد آبادی نے اتنی شاعری کی کہ اگر محبوب حسین جگرؔ ان کی داد وصول کرتے تو کوئی فکر کی بات نہیں تھی۔ مزاحیہ انداز میں یوسف ناظم نے ہندوستان کے دو جگرؔ کا تعارف کرایا ہے۔

    2۔    محبوب حسین جگرؔ سے مصنف کی پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی۔

جواب:    جگرؔ صاحب کا تعارف کراتے ہوئے یوسف ناظم لکھتے ہیں کہ ان کی جگرؔ صاحب سے ملاقات عثمانیہ یونیورسٹی میں ہوئی تھی جب وہ اورنگ آباد سے تقریری مقابلے میں شرکت کے لیے عثمانیہ یونیورسٹی آئے تھے۔جگرؔ صاحب کے بھائی ابراہیم جلیس گلبرگہ سے نمائیندگی کر رہے تھے۔جگرؔ صاحب اس تقریری مقابلے کے نگران تھے۔ ایک دن پہلے انہوں نے میری ریہرسل کرائی اور میری تقریر کو پسند کرتے ہوئے کہا کہ انعام تم ہی جیتوگے۔ دوسرے دن ہوٹنگ رہی لیکن جو ثابت قدم رہا اس نے ہی انعام جیتا۔اس کے بعد میں نے کبھی تقریری مقابلے میں حصہ نہیں لیا۔

    3۔    محبوب حسین جگرؔ اور عابد علی خاں کی دوستی کے بارے میںآپ کیا جانتے ہیں۔

جواب:    جناب عابدعلی خاںحیدرآباد کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں ان کی دوستی محبوب حسین جگرؔ سے ہوئے۔ عابد علی خاں صاحب اور جگرؔ صاحب کی دوستی حیدرآباد میں مثالی تھی۔یوسف ناظم نے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ جب 1948ء میں عابد علی خان نے روزنامہ سیاست اخبار جاری کیا تو جگرؔ صاحب عابد علی خاں کے دست راست تھے۔اردو کے اکثر شعرا ظفر علی خان۔مولانا محمد علی جوہر۔حسرت موہانی۔عبدالماجد دریابادی۔جوشؔ وغیرہ شاعر بھی تھے اور صحافی بھی ۔ صرف سیاست وہ اخبار تھا جس کے مدیر اور نائب مدیر دونوں شاعر نہیں تھے۔سیاست نے بہت ترقی کی اور دونوں ’’سید برادران‘‘ کے نام سے اردو صحافت میں مشہور ہوئے۔

III    ایک لفظ یا جملے میں جواب لکھیے۔

    1۔    جگرؔ مراد آبادی کس طرح اپنا کلام سناتے تھے۔
جواب:        ڈوب کر کلام سناتے تھے اور انہیں پتہ نہیں چلتا تھا کہ ان کے حصے کی داد کوئی دوسرے جگرؔ حاصل کر رہے ہیں۔
    2۔    یوسف ناظم کب اور کہاں پیدا ہوئے۔
جواب:        یوسف ناظم 18نومبر1918ء کو جالنہ میں پیدا ہوئے۔
    3۔    ڈاکٹر زور کلاس میں کس حالت میں آتے تھے۔
جواب:        جامعہ عثمانیہ میں ڈاکٹر زور کلاس میں آتے وقت اپنا بٹوہ ساتھ لاتے تھے۔
    4۔    محبوب حسین جگرؔ کو پان کھانے کا کیسا سلیقہ تھا۔
جواب:        محبوب حسین جگرؔ پان سلیقے سے کھاتے تھے۔ کہیں تھوکتے نہیں تھے اور نہ ان کے کپڑوں پر پان کے دھبے ہوتے تھے۔
    5۔    یوسف ناظم کے سفر نامہ کا نام کیا ہے۔
جواب:        امریکہ میری عینک سے
IV    1۔    یوسف ناظم نے محبوب حسین جگر ؔ کا خاکہ کس طرح کھینچا ہے بیان کیجئے۔
     2۔    خاکہ محبوب حسین جگر ؔ کا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کیجئے۔
    3۔    محبوب حسین جگر ؔ کی شخصیت کے اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالئے۔

جواب:        ( جواب کے لیے محبوب حسین جگر ؔ کاخلاصہ پڑھئیے)۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے