Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

حیاتی تنوع(بائیو ڈائیورسٹی) ۔مضمون۔ ڈاکٹر عزیز احمد عرسی

مضمون کی تعریف
 مضمون کو انگریزی میںEssayیا Articalکہتے ہیں۔ مضمون سے مراد کسی بھی موضوع پر لکھی ہوئی معلوماتی تحریر ہے جسے ہم ایک نشست میں دس سے پندرہ منٹ میں پڑھ سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ وقت مطالعے کے لئے لگے تو ہم اسے طویل مضمون کہیں گے۔ دور حاضر میں اخبارات ‘رسائل ‘جرائد ‘نصابی کتابوں میں مختصر اور طویل مضامین لکھنے کی روایت عام ہے۔ مضمون زندگی کے کسی بھی شعبے سے متعلق کسی بھی موضوع پر لکھا جاسکتا ہے۔ اور زندگی کے اہم شعبہ جات مذہب‘ سماج‘سیاست‘ اقتصادیات‘سائینس ‘سماجی علوم اور دیگر علوم ہیں۔ دور حاضر میں کھیل کود‘تفریحات‘فلم‘ ٹیلی ویژن‘فیشن‘طب غرض ہر قسم کے موضوعات پر مضامین لکھے جارہے ہیں۔ مضمون لکھنے کا بنیادی مقصد موضوع سے متعلق وسیع تر معلومات بہم پہونچانا ہوتا ہے۔ مضمون میں موضوع کا تعارف ‘موضوع کی پیشرفت اور موضوع سے متعلق مثبت اور منفی پہلوئوں کو بیان کرتے ہوئے آخر میں اپنا نکتہ نظر پیش کرنا ہوتا ہے۔ مضمون کے اجزاء میں تمہید۔مواد۔ تفسیرمتن اور اختتام شامل رہتے ہیں۔پروفیسر سیدہ جعفر نے اردو مضمون نگاری کتاب میں مضمون کی دس قسمیں بتائی ہیں۔اسسے۔ مضمون نما تحریریں۔تاریخی مضامین۔ سیاسی مضامین۔انشائے لطیف۔مذہبی مضامین۔سماجی اور اصلاحی مضامین۔ فلسفیانہ مضامین۔ طنزو مزاح اور تنقیدی مضامین شامل ہیں۔مضمون کے لئے ضروری ہے کہ اس کا انداز بیان سادہ اور سلیس ہو اور اس میں جذبات نگاری سے احتراز کیا جائے۔اردو کے اہم مضمون نگاروں میں ماسٹر رام چندر۔سرسید احمد خان۔مولانا محمد علی۔ ابوالکلام آزاد۔ وقار عظیم‘عابد حسین‘آل احمد سرور‘کلیم الدین احمد‘رشید احمد صدیقی‘پطرس بخاری‘احسن فاروقی‘سلیم اختر وغیرہ شامل ہیں۔
مصنف کا تعارف
خواجہ عزیز احمد عرسی1955کو شہر ورنگل تلنگانہ میں پیدا ہوئے۔اسلامیہ کالج ورنگل سے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی ۔ ورنگل کے عثمانیہ یونیورسٹی کالج سے بی ایس سی کیا۔ بھوپال یونیورسٹی سے ایم ایس سی اور کاکتیہ یونیورسٹی سے سمکیات پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔اسلامیہ ڈگری کالج میں بہ حیثیت لیکچرر کام کیا اور 32برس خدمات انجام دینے کے بعدبہ حیثیت پرنسپل2013ء میں وظیفہ پر سبکدوش ہوئے۔ سائنسی مضامین لکھنے میں ماہر ہیں ان کے کئی سائنسی مقالے مستند سائنس جرنلس میں شائع ہوچکے ہیں۔کئی یونیورسٹیوں کے سمیناروںمیں مقالے پیش کئے۔سائنس میں تحقیق کے رجحانات جاننے کے لیے امریکہ اور کناڈاکی یونیورسٹیوں کا دورہ کیا۔سائنس کی تدریس سے متعلق کئی مضامین لکھے۔اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش نے تحقیق و تنقید کے زمرے میں انہیں2011ء میں کارنامہ حیات ایوارڈ دیا۔1992ء میں آندھرا پردیش کی یونیورسٹیوں کے مشترکہ نصاب کے لیے’’ سائنس و تمدن ‘‘ کتاب لکھی۔مولانا آزاد اردو یونیورسٹی نے ان کی کتاب ’’ حیوانات میں علم السلوک‘‘ کی اشاعت عمل میں لائی۔ڈاکٹر عزیز احمد عرسی کے مضامین اہم روزناموں منصف۔سیاست۔گواہ اور ویب میگزین جہان اردومیں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ مضمون ’’ حیاتی تنوع‘‘ میں انہوں نے ہمارے ماحول پر زندگی کے تعلق سے اہم معلومات پیش کی ہیں۔مضمون کا خلاصہ اس طرح ہے۔

خلاصہ
ڈاکٹر عزیز احمد عرسی ورنگل تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے نامور سائنسی مضمون نگار ہیں۔ اپنے مضمون’’ حیاتی تنوع‘‘ میں انہوں نے زمین کے اطراف پائے جانے والے ماحول کے بارے میں اپنے مطالعے کو پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر عزیز احمد عرسی لکھتے ہیں کہ یہ دنیا خدا کا ایک عظیم انعام ہے۔ اللہ نے انسانوں کی خاطر یہ دنیا بنائی اور اور اس زمین پر طرح طرح کے پودوں اور جانوروں کو پیدا کیا تاکہ انسان ان سے فائدہ اٹھا سکے۔ زمین پر پائے جانے والے رنگا رنگ پودے اور جانور حیاتی تنوع کہلاتے ہیں۔
    ڈاکٹر عزیز احمد عرسی اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حیاتی تنوع کا لفظ سب سے پہلے ریمنڈ ڈسمنڈ نے1968ء میں استعمال کیا۔یہ سائنس دان جنگلات کی کٹوائی کا مخالف تھا۔اور درختوں اور پودوں کی حفاظت پر زور دیتا تھا۔لیکن حیاتی تنوی کی اصطلاح کو بعد میں ماہر حشرات الارض ولسن نے دی۔ اس نے حیاتی تنوع کا مفہوم واضح کیا کہ زندگی کے تمام مدارج میں زندہ اجسام میں جین کی بنیاد پر جو تغیرات ہوتے ہیں وہ حیاتی تنوع کہلاتا ہے۔ ان زندہ اجسام میں تمام پودے۔جانور اور حشرات شامل ہیں۔حیاتی تنوع کی تعریف کے بعد ڈاکٹر عزیز احمد عرسی نے ہندوستان میں ماحولیات کی صورتحال کو واضح کیا اور لکھا کہ ہندوستان زمین کے ماحول کے اعتبار سے اہم ملک ہے یہاں پودوں کی اقسام’’فلورا‘‘ اور حیوانات کی اقسام‘‘فائونا‘‘ اہم ہیں۔انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہندوستان میں حیاتی تنوع کی صورتحال نا گفتہ ہے۔ انسان کی ماحول میں بے جا مداخلت کے سبب قدرتی چیزوں میں بگاڑ آرہا ہے اور قدرتی وسائل میں کمی آرہی ہے۔ہندوستان میںکئی دریا اور جنگل ہیں جن کے تحفظ کی ضرورت ہے۔مشرقی اور مغربی گھاٹ میں جنگلات کے تحفظ کے پروگراموں پر عمل کرتے ہوئے حیاتی تنوع کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حیاتی تنوع کا تحفظ ماحولیاتی تحفظ سے راست جڑا ہوا ہے۔موجودہ انواع کو بہتر حالت میں بچائے رکھنااور گمشدہ انواع کی تلاش ‘جنگلات کا تحفظ اور قدرتی وسائل کے تحفظ سے حیاتی تنوع کو بچایا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر عزیز احمد عرسی نے مثالیں دیتے ہوئے لکھا کہ انسان کس طرح ماحول پر اثر انداز ہورہے جنگلات کی کٹائی۔ ایک قسم کی فصلیں اگانا۔فصلوں پر جراثیم کش ادویات کا استعمال جس سے پرندوں اور حشرات کو نقصان ہورہا ہے۔کارخانوں کے فضلے کے اخراج کے مسائل۔زرعی زمینوں کو رہائشی علاقوںمیں بدلنا۔گلوبل وارمنگ۔ان وجوہات سے ماحول اور حیاتی تنوع پر گہرا اثر پڑ رہا ہے بہت سے پودوں اور حشرات کی اقسام معدوم ہورہی ہیں۔حیاتی تنوع کو بچانے کے لیے انسانی اقدامات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر عزیز احمد عرسی لکھتے ہیں یہ ہر سال 22مئی کو یوم حیاتی تنوع منا کر ماحول کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگرکیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماحول کے بارے میں لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے۔ ماحولیاتی تحقیق کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ حیاتی تنوع پر کام کرنے والوں کو انعام دیا جائے۔ عوامی پروگرا م منعقد کئے جائیں۔قومی پارک اور زو قائم کئے جائیں۔زیادہ سے زیادہ پیڑ پودے لگائے جائیں ۔جنگلات کے کٹائو پر قابو پایا جائے۔ ماحول کو گرم کرنے والی اشیاء کم استعمال کئے جائیں اور اپنے ماحول کو قدرت کے اصولوں کے مطابق برتا جائے تو کرہ ارض پر حیاتی تنوع میں توازن رہے گا اور زمین پر بڑی آفات جیسے سیلاب۔طوفان۔ زلزلے ۔قحط وغیرہ کم ہوں گے اس کے لیے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ’’ حیاتی تنوع کا تحفظ زندگی کا تحفظ ہے‘‘۔

فرہنگ

    معمہ        :    پیچیدہ سوال
    سربستہ         :    پوشیدہ۔چھپا ہوا
    تنوع        :    ہمہ اقسام
    نا گفتہ بہ        :    ناقابل بیان
    ترشہ        :    تیزاب
    فرٹیلائزر        :    کھاد
    تغیر        :    تبدیلی
    معدوم        :    مٹ جانا
    ماہی گیر        :    مچھلی پکڑنے والا
    بقا        :    بچنا ۔باقی رہنا

سوالات

I    مندرجہ ذیل عبارت کی بحوالہ متن تشریح کیجئے۔

    1۔    حیاتی تنوع کا تحفظ ماحولیاتی نظام کے تحفظ سے راست جڑا ہوا ہے۔

حوالہ:        یہ عبارت ڈاکٹر عزیز احمد عرسی کے تحریر کردہ سائنسی مضمون’’ حیاتی تنوع‘‘ (بائیو ڈائیورسٹی) سے لی گئی ہے۔
تشریح:        اس عبارت میںمضمون نگار ڈاکٹر عزیز احمد عرسی نے ماحول کے تحفظ پر زور دیا ہے ۔ انہوں نے واضح کیاکہ قدرت نے جس اندازمیں ماحول میں پودے۔ حشرات ۔جانور اور انسان پیدا کئے ہیں۔ انسان اپنی غلط حرکتوں سے ماحول پر اثر انداز ہورہاہے۔جنگلات کے کٹائو۔ زراعت میں دوائوں کے استعمالات۔ ماحول کو گرم کرنے والی گیسوں کا زیادہ استعمال وغیرہ سے ماحول کو متاثر کر رہا ہے جس کے سبب ماحولیاتی بگاڑ ہورہا ہے۔ حیاتی تنوع متاثر ہو کر کئی حشرات اور پودے معدوم ہورہے ہیں ۔ موسم بدل رہے ہیں ۔ اس لیے مضمون نگار انسانوں پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ماحول کا تحفظ کرنے کے اقدامات کئے جائیں تو ہی حیاتی تنوع باقی رہے گا۔
مرکزی خیال: حیاتی تنوع قدرت کی جانب سے عطا کردہ عظیم تحفہ ہے جسے ماحولیاتی تحفظ کے ذریعے بچایا جاسکتا ہے۔

    2۔    زرعی زمینوں کی رہائشی علاقوں میں تبدیلی بھی ایک اہم وجہہ ہے جس کے سبب حیاتی تنوع مختلف مسائل سے دوچارہے۔

حوالہ:        یہ عبارت ڈاکٹر عزیز احمد عرسی کے تحریر کردہ سائنسی مضمون’’ حیاتی تنوع‘‘ (بائیو ڈائیورسٹی) سے لی گئی ہے۔
تشریح:        اس عبارت میںمضمون نگار ڈاکٹر عزیز احمد عرسی نے حیاتی تنوع کو بگاڑنے میں انسان کی غلطیوںکی طرف اشارہ کیا ہے۔ آبادی میں اضافے کے سبب زرعی زمینوں کو رہائشی علاقوں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ زمین بنجر ہوتی جارہی ہے اور صرف شہروں کی ترقی  کے لیے جنگل کو کاٹ کر شہر بنائے جارہے ہیں جس کے سبب موسم تبدیل ہورہے ہیں بارش کہیںکم یا کہیں زیادہ ہوکر سیلاب لارہی ہے جنگل نہ ہونے سے پرندوں اور جانوروں کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے جو ہمارے ماحول کو تناسب میں رکھنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اس لئے مضمون نگار انسانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زرعی زمینوں اور جنگلوں کا تحفظ کیا جائے۔
مرکزی خیال:ماحولیاتی تنوع کی برقراری کے لیے زرعی زمینوں کا تحفظ کیا جائے۔ پودے لگائے جائیں اور گائوں کو بھی آباد کیاجائے۔

    3    اس دنیا میںہماری بہتری و بہبودی اس دنیا کے قدرتی وسائل سے ہے۔

حوالہ:        یہ عبارت ڈاکٹر عزیز احمد عرسی کے تحریر کردہ سائنسی مضمون’’ حیاتی تنوع‘‘ (بائیو ڈائیورسٹی) سے لی گئی ہے۔
تشریح:        اس عبارت میںمضمون نگار ڈاکٹر عزیز احمد عرسی نے قدرتی وسائل کے تحفظ پر زور دیا ہے۔انسان اپنے بے جا مقاصد کے لیے زمین پر پائے جانے والے قدرتی وسائل کا بے تحاشہ استعمال کر رہا ہے جس سے ماحولیاتی عدم توازن ہورہا ہے اور حیاتی تنوع کو نقصان پہونچ رہا ہے۔ قدرتی وسائل کا تحفظ اور ان کی برقراری سے ماحول کا توازن برقرار رہ پائے گا۔
مرکزی خیال:    قدرتی وسائل کا متوازن استعمال اور ان کے تحفظ سے حیاتی تنوع کی برقراری میں مدد مل سکتی ہے۔
اضافی متن کے حوالے

    4۔    یہی رنگا رنگی پودے اور قسم قسم کے جانور حیاتی تنوع کہلاتے ہیں۔

حوالہ:        یہ عبارت ڈاکٹر عزیز احمد عرسی کے تحریر کردہ سائنسی مضمون’’ حیاتی تنوع‘‘ (بائیو ڈائیورسٹی) سے لی گئی ہے۔
تشریح:        اس عبارت میںمضمون نگار ڈاکٹر عزیز احمد عرسی نے حیاتی تنوع کی تعریف کی ہے کہ قدرت نے اس زمین پر انسان کے فائدے کے لیے بے شمار پودے‘حشرات اور حیوانات پیدا کئے ہیں جس سے حیاتی تنوع تشکیل پیدا ہوتا ہے۔ اگر ان میں توازن رہے تو حیاتی تنوع برقرار رہتا ہے ورنہ عدم توازن سے بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
مرکزی خیال:    زمین پر قدرتی ماحول اور جاندار حیاتی تنوع تشکیل دیتے ہیں۔جس کا تحفظ کرنا انسانوں کے لیے لازمی ہے۔

    5۔     ادویات اور فرٹیلائزرس کا چھڑکائو بھی حیاتی تنوع میں تباہی لانے کی اہم وجہہ ہے۔

حوالہ:        یہ عبارت ڈاکٹر عزیز احمد عرسی کے تحریر کردہ سائنسی مضمون’’ حیاتی تنوع‘‘ (بائیو ڈائیورسٹی) سے لی گئی ہے۔
تشریح:        اس عبارت میںمضمون نگار ڈاکٹر عزیز احمد عرسی نے حیاتی تنوع کو بگاڑنے والے عوامل کی طرف اشارہ کیا ہے ۔کھیتوں میں حشرات کو مارنے اور جراثیم کش ادویات کے طور پر قدرتی دوائیں اور طریقے اختیار کرنے کے بجائے انسان جراثیم کش ادویات استعمال کر رہا ہے۔ مرنے والے کیڑے پرندے کھاتے ہیں اور دوا کے اثرات سے وہ مرجاتے ہیں۔بہت سے حشرات ماحول دوست ہوتے ہیں اس طرح کی ادویات کے استعمال سے ان کا خاتمہ ہوجاتا ہے جس پر ماحول کا توازن بگڑ جاتا ہے اس لیے انسان کو حیاتی تنوع کی برقراری کے لیے جراثیم کش ادویات کے استعمال سے احتیاط برتنی چاہئے۔

    6۔    بلا ضرورت دریائوں کے رخ کو نہ موڑاجائے اور انہیں آلودہ نہ کیا جائے۔

حوالہ:        یہ عبارت ڈاکٹر عزیز احمد عرسی کے تحریر کردہ سائنسی مضمون’’ حیاتی تنوع‘‘ (بائیو ڈائیورسٹی) سے لی گئی ہے۔
تشریح:        اس عبارت میںمضمون نگار ڈاکٹر عزیز احمد عرسی نے حیاتی تنوع کی برقراری کی تجاویز کے طور پر لکھا کہ انسان اپنی ضرورت کے لیے دریائوں کا رخ موڑ دیتا ہے جس سے زمین پر تغیرات آتے ہیں۔دریائوں کو آلودہ کرنے سے پانی میں پائے جانے والے حشرات اور جانور وں کی زندگی میں خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس لیے دریائوں کا تحفظ ضروری ہے۔
مرکزی خیال:    دریائوں کو قدرتی حال پر رکھا جائے اور انہیں آلودہ ہونے سے بچایا جائے۔ تب ہی حیاتی تنوع ممکن ہے۔

II    پانچ سطروں میں جواب لکھئے۔

    1۔    حیاتی تنوع سے کیا مراد ہے۔

جواب:        ڈاکٹر عزیز احمد عرسی نے اپنے مضمون حیاتی تنوع میں زمین پر پائے جانے والے قدرتی ماحول کا تعارف کرایا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ یہ دنیا خدا کا ایک عظیم انعام ہے۔ اللہ نے انسانوں کی خاطر یہ دنیا بنائی اور اور اس زمین پر طرح طرح کے پودوں اور جانوروں کو پیدا کیا تاکہ انسان ان سے فائدہ اٹھا سکے۔ زمین پر پائے جانے والے رنگا رنگ پودے اور جانور حیاتی تنوع کہلاتے ہیں۔
    ڈاکٹر عزیز احمد عرسی اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حیاتی تنوع کا لفظ سب سے پہلے ریمنڈ ڈسمنڈ نے1968ء میں استعمال کیا۔یہ سائنس دان جنگلات کی کٹوائی کا مخالف تھا۔اور درختوں اور پودوں کی حفاظت پر زور دیتا تھا۔لیکن حیاتی تنو ع کی اصطلاح کو بعد میں ماہر حشرات الارض ولسن نے دی۔ اس نے حیاتی تنوع کا مفہوم واضح کیا کہ زندگی کے تمام مدارج میں زندہ اجسام میں جین کی بنیاد پر جو تغیرات ہوتے ہیں وہ حیاتی تنوع کہلاتا ہے۔

    2۔    ہندوستان میں حیاتی تنوع کی کیا صورتحال ہے۔

جواب:        ڈاکٹر عزیز احمد عرسی نے اپنے مضمون حیاتی تنوع میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان بھی حیاتی تنوع کے اعتبار سے اہم ملک ہے۔ یہاں پودوں کی اقسام’’فلورا‘‘ اور حیوانات کی اقسام‘‘فائونا‘‘ اہم ہیں۔انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہندوستان میں حیاتی تنوع کی صورتحال نا گفتہ ہے۔ انسان کی ماحول میں بے جا مداخلت کے سبب قدرتی چیزوں میں بگاڑ آرہا ہے اور قدرتی وسائل میں کمی آرہی ہے۔ہندوستان میںکئی دریا اور جنگل ہیں جن کے تحفظ کی ضرورت ہے۔مشرقی اور مغربی گھاٹ میں جنگلات کے تحفظ کے پروگراموں پر عمل کرتے ہوئے حیاتی تنوع کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔     

    3۔    حیاتی تنوع کو بچانے کے لیے چند تجاویز تحریر کریں۔

جواب:        ڈاکٹر عزیز احمد عرسی نے اپنے مضمون حیاتی تنوع میں حیاتی تنوع کو بچانے کی تجاویز پیش کی ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ہر سال 22مئی کو یوم حیاتی تنوع منا کر ماحول کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگرکیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماحول کے بارے میں لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے۔ ماحولیاتی تحقیق کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ حیاتی تنوع پر کام کرنے والوں کو انعام دیا جائے۔ عوامی پروگرا م منعقد کئے جائیں۔قومی پارک اور زو قائم کئے جائیں۔زیادہ سے زیادہ پیڑ پودے لگائے جائیں ۔جنگلات کے کٹائو پر قابو پایا جائے۔ ماحول کو گرم کرنے والی اشیاء کم استعمال کئے جائیں اور اپنے ماحول کو قدرت کے اصولوں کے مطابق برتا جائے تو کرہ ارض پر حیاتی تنوع میں توازن رہے گا اور زمین پر بڑی آفات جیسے سیلاب۔طوفان۔ زلزلے ۔قحط وغیرہ کم ہوں گے اس کے لیے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ’’ حیاتی تنوع کا تحفظ زندگی کا تحفظ ہے‘‘۔

III    ایک لفظ یا جملے میں جواب لکھیے۔

    1۔    حیاتی تنوع کا لفظ سب سے پہلے کس سائنس دان نے استعمال کیا۔
جواب:        ریمنڈ ڈیسمنڈ
    2۔    ماحولیاتی تحفظ سے کیا مراد ہے۔
جواب:        ماحول کو قدرت کے مطابق محفوظ رکھنا۔
    3۔    جنگل کاٹنے کی اہم وجہہ کیاہے۔
جواب:        انسانوں کی رہائش
    4۔    ڈاکٹر عزیز احمد عرسی کو کونسا ایوارڈ دیا گیا۔
جواب:        کارنامہ حیات ایوارڈ
    5۔    کس تاریخ کو ’’ یوم حیاتی تنوع‘‘ منایا جاتاہے۔
جواب:        22مئی۔

IV    پندرہ سطروں میںجواب لکھئے۔

    1۔    حیاتی تنوع کسے کہتے ہیں۔انسان کس طرح حیاتی تنوع پر اثر انداز ہورہا ہے۔
    2۔    حیاتی تنوع کو بچانے کے اقدامات بیان کیجئے۔
    3۔    سائنسی مضمون ’’حیاتی تنوع‘‘ سے کیا معلومات ہوتی ہیں۔ لکھیے۔

جواب:        ( جواب کے لیے مضمون کا خلاصہ پڑھیں)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے