میں نے لکھنا کیسے شروع کیا؟ ابن صفی
سوانح کی تعریف
سوانحی مضمون سے مراد ایسا مضمون جس میں کسی شخصیت کے حالات یا زندگی کے واقعات اس طرح بیان کئے جائیں کہ قاری کے رو برو اس شخص کی واضح تصویر سامنے آجائے۔ اگر کوئی ادیب اپنی سوانح خود لکھے تو اسے آپ بیتی یا خودنوشت سوانح کہتے ہیں۔ سوانح کی ایک شکل خاکہ ہے جس میں شخصیت کا اظہار اختصار سے ہوتا ہے اور اس کی زندگی کے تمام واقعات کے بجائے کچھ پہلوئوں کو سامنے لایا جاتا ہے۔ ابن صفی کا مضمون بھی سوانح اور خاکے کی ملی جلی شکل ہے جس میں انہوں نے اپنے ادبی سفر کے تعلق سے اظہار خیال کیا ہے۔ اردو میں سوانح نگاری کو الطاف حسین حالی نے فروغ دیا۔اردو کے دیگر سوانح نگاروں میں شبلی۔فرحت اللہ بیگ۔ امجد حیدرآبادی‘ عبدالماجد دریا آبادی‘ صالحہ عابدحسین اور دیگر شامل ہیں۔
مصنف کا تعارف
ابن صفی(1928-1980) اردو کے نامور جاسوسی ادیب گزرے ہیں۔26جولائی 1928ء کو الہ آباد اتر پردیش کے ایک گائوں نارا میں پیدا ہوئے۔والد کا نام صفی اللہ تھا۔اردو زبان کے شاعر نوح ناروی رشتے میں ابن صفی کے ماموں تھے۔وہیں مقامی اسکول میں پرائمری تعلیم حاصل کی۔ڈی اے وی اسکول الہ آباد سے میٹرک کامیاب کیا۔الہ آباد ایوننگ کالج سے انٹرمیڈیٹ کامیاب کیا۔جامعہ آگرہ سے بی اے کیا۔ پیشہ تدریس سے وابستہ رہے۔ تقسیم ہند کے بعد1952 ء کو پاکستان منتقل ہوگئے۔
ابن صفی بلاشبہ اردو کے عظیم جاسوسی ناول نگار گزرے ہیں۔ انہوںنے ابتداء میں انگریزی جاسوسی ناولوں کے خیال پر مبنی ناول لکھے۔ بعد میں وہ خود اپنے ناول لکھنے لگے۔ فریدی اور عمران ان کے ناولوں کے دو مرکزی کردار ہیں۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں جو سائنس فکشن پیش کیا وہ بہت عرصے بعد حقیقت کا روپ لینے لگا۔ ابن صفی کو زبان اور اظہار خیال پر عبور تھا۔ جاسوسی کہانیاں لکھنے کے باوجود زبان و بیان کی صفائی نے ان کے ناولوں کو مقبول بنایا۔ ان کا پہلا ناول’’دلیر مجرم‘‘ ہے۔
1955 ء میں انہوں نے ’’ خوفناک عمارت‘‘ کے عنوان سے عمران سیریز کا پہلا ناول لکھا۔فریدی اور حمیدکے کرداروں اور عمران سیریز کے تحت وہ مسلسل ناول لکھتے رہے۔ انہوں نے دو سو سے ذائد ناول لکھے۔جاسوسی ادب کو عام طور پر اردو ادب کا حصہ نہیں سمجھاجاتا لیکن ان کی تحریرں اردو ادب کا بیش قیمت حصہ ہیں اور کئی لوگوں نے ان کے ناولوں کا مطالعہ کرکے اردو زبان سیکھی۔’’میں نے لکھنا کیسے شروع کیا؟‘‘ کے عنوان سے ان کا ایک سوانحی مضمون نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ جس میں انہوںنے اپنے قلمی سفر کے تاثرات پیش کئے ہیں۔
خلاصہ
ابن صفی نے اپنے بچپن کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ شام ہوتے ہی انہیں ایسا لگتا تھا کہ باغ میں داستانوں کی محفل سجے گی ۔ وہ بچپن سے ہی داستانوں کے مطالعے کے شوقین رہے۔سات آٹھ سال کی عمر میں انہوں نے طلسم ہوشربا کی ساتوں جلدیں پڑھ لی تھیں۔ اور وہ اس داستان کے کرداروں اور واقعات میں کھوئے رہتے تھے۔اپنے گائوں نارا کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ان کا گائوں بھرا پرا خوشحال زمین داروں کی بستی تھی۔ زندگی میں چین و سکون تھا لوگوں کے پاس فرصت تھی اور لوگ مختلف تفریحات جیسے تاش یا شطرنج کھیلنے یا شکار کھیلنے میں مصروف رہتے ۔ کچھ گھروں میں علم و ادب کے چرچے رہتے۔ اپنے گھر کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ ان کے والد کو مطالعے کا شوق تھا ۔گھر میں ناولوں اور قدیم داستانوںکے ڈھیر لگے ہوئے تھے لیکن انہیں ان کتابوں کو پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔چوری چھپے وہ کوئی کتاب نکال لیتے اور باہر کھیلنے جانے کا بہانہ کرتے ہوئے گھر کی چھت پر دن بھر بیٹھ کر کتابیں پڑھنے لگتے۔ ایک دن ان کی چوری پکڑی گئی لیکن ان کی والدہ نے تائید کی کہ اسرار ان بچوں سے تو بہتر ہے جو دن بھر گلی ڈنڈا اور گولیاں کھیلتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں کتابیں پڑھنے کی چھوٹ مل گئی۔اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے میں انہوںنے لکھا کہ پرائمری تعلیم کے بعد سکنڈری تعلیم کے لیے شہر جانا پڑا۔اکثر زمینداروں کے بچے تعلیم ترک کردیتے تھے لیکن ان کی والدہ کی خواہش پر ابن صفی کی تعلیم جاری رہی۔شہر میںکتابیں دستیاب نہیں ہوئیں تو ان کی بے چینی بڑھ گئی۔ ایک ہم جماعت کے پاس سے دو کتابیں عذرا اور عذرا کی واپسی پڑھی۔ جس کے بعد وہ پھر خوابوں میں کھوجاتے اور خیالی عذرا سے جادوئی انداز کی گفتگو کرنے لگتے۔ان کے ابتدائی ایام میں طلسم ہوشربا اور رائیڈر ہیگرڈ نے ان کے ذہن کو بہت متاثر کیا۔ دونوں مصنفین کے خیالات کو ملا کر ان کے ذہن میں بھی بہت کچھ خیالات آنے لگے اور ایک دن انہوں نے ایک کہانی لکھ دی اس وقت وہ ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔ انہوں نے وہ کہانی ہفت روزہ ’’ شاہد‘‘ بمبئی میں اشاعت کے لیے بھیج دی۔ اس جریدے کے مدیر عادل رشید نے ان کی کہانی کسی معمر ادیب کی سمجھ کر شائع کردی۔گھر کے بڑوں نے ان کا مذاق اڑانا شروع کیا۔ بعد میں وہ اکثر کہانیاں لکھ کر شائع کرانے لگے۔ جن میں رومانی کہانیاں بھی ہوتی تھیں۔ترقی پسند تحریک کے دور کو انہوں نے قریب سے دیکھا تھا۔ جگرؔ اور جوشؔ کو لوگ ترقی پسند شاعر مانتے تھے۔ لیکن ترقی پسندی کا مفہوم کچھ اور ہی تھا۔ گرائجویشن کے بعد انہوں نے ماہنامہ’’نکہت‘‘ الہ آباد کے لیے طنزیہ مضامین طغرل فرغان کے نام سے لکھے۔ابن صفی نے لکھا کہ جاسوسی ناولوں کا سلسلہ1952ء س شروع ہوا۔اس زمانے میں جنسی کہانیوںکا ہی مارکیٹ تھا لیکن ابن صفی کا خیال تھا کہ کچھ اوربھی لکھا جاسکتا ہے عوامی دلچسپی کے لیے۔ چنانچہ انہوں نے جاسوسی ادب لکھنا شروع کیا۔ان کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ انگریزی ناولIronsides lone Handsسے ماخوذ تھا جس کے مصنف وکٹر گن تھے۔ اس ناول میں فریدی اور حمید کے کردار خود ان کے تھے۔انہوں نے لکھا کہ ابتدائی آٹھ ناولوںکی کہانی اور خیال انہوںنے انگریزی ناولوں سے لیا۔ بعد میں خود اپنے طور پر ناول لکھنے لگے۔ جب لوگ انہیں مقصدی ادب لکھنے کی بات کرتے تو ابن صفی کا خیال تھا کہ اردو کے قاری یکسانیت سے بور ہوتے ہیں انہیں بھی کچھ نیا پڑھنے کو ملنا چاہئے۔افسانوی ادب تفریح کا ایک ذریعہ ہے اور تفریح زندگی کی یکسانیت کا متبادل ہے۔انہوں نے تقسیم ہند کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ انسانیت کاخون بہتا رہا تھا اور اعلیٰ ادب کے قائل لوگ کچھ نہیں کرسکے تھے۔جاسوسی ناول لکھنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے ابن صفی نے لکھا کہ میرا مقصد یہی ہے کہ لوگ قانون کا احترام کرنا سیکھیں۔ تھکے ہارے لوگوں کو ان ناولوں سے کچھ تفریح کا سامان فراہم ہو۔فریدی ان کا آئیڈیل تھا جو لوگوں کو قانون کا احترام سکھاتا تھا۔ان کا خیال ہے کہ صرف جاسوسی ناولوں کے مطالعے سے لوگوں میں قانون کا احترام نہیں آئے گا بلکہ اس کے لیے ملکی قوانین کی تعلیم عوامی سطح پر ہونی چاہئے۔اور اسے نصاب میں شامل کیا جائے تب ہی لوگوں کو قانون سے آگہی ہوگی ۔ اس طرح انہوں نے اپنے لکھنے کے احوال بیان کئے۔
فرہنگ
سالخوردہ : پرانا۔
درآنا : اندر داخل ہونا
طلسم ہوشرب : قدیم داستان
گنجفہ : تاش کی طرح کا ایک کھیل
مغفور : بخشا گیا
ٹھن جانا : ان بن ہونا
منقطع : کاٹنا
مطبع : چھاپہ خانہ‘پریس
سرگرداں : حیران و پریشان‘آوارہ
تسلط : حکومت‘قبضہ‘قابو
چسکہ : مزہ ‘خواہش‘عادت
رسیا : مزہ لوٹنے والا۔رنگیلا۔شوقین
نصب العین : اصلی مقصد۔دلی منشا ۔اصول
پراگندگی : حیرانی۔پریشانی۔تشویش
انتشار : بکھرنا۔منتشر ہونا
تابوت : وہ صندوق جس میںلاش رکھتے ہیں
سنگسار : پتھر مار مارکر کسی انسان کو ہلاک کردینا
پیروڈیز : کسی نظم کی نقل کرنا
اپج : نئی بات۔ایجاد
حتی الامکان : بساط بھر۔جہاں تک ممکن ہوسکے
استبداد : ظلم و ستم۔مطلق العنانی
دانست : واقفیت۔ سمجھ
دفع : قانونی اصول
مدارج : درجہ۔رتبہ
I مندرجہ ذیل عبارت کی بحوالہ متن تشریح کیجیے۔
1۔ ابے او مصور جذبات ذرا ایک گلاس پانی لانا۔
حوالہ: یہ عبارت نامور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کے تحریر کردہ مضمون’’ میں نے لکھنا کیسے شروع کیا؟ سے لی گئی ہے۔
تشریح: اس عبارت میں ابن صفی نے اپنی پہلی کہانی کی اشاعت پر گھر والوں کے طعنے کا ذکرکیا ہے۔ ابن صفی کو بچپن سے مطالعے کا شوق تھا جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو انہوں نے اپنا پہلا افسانہ لکھ کر بمبئی کے رسالہ ’’ شاہد‘‘ کو روانہ کیا ۔رسالے کے مدیر عادل رشید نے ان کے افسانے کو کسی تجربہ کار معمر ادیب کا افسانہ سمجھ کرمصنف کے نام کی جگہ’’ نتیجہ فکر مصور جذبات حضرت اسرار ناروی‘‘ لکھ کر شائع کردیا۔ افسانہ کی اشاعت اور گھر والوں کی اس پر نظر پڑے ہی ان لوگوں نے ابن صفی کو طنز و طعنوں کا نشانہ بنایا اور کہا کرتے تھے کہ ’’ ابے او مصور جذبات ذرا ایک گلاس پانی لانا! ابن صفی کی عظمت تھی کہ انہوں نے بچپن میں ایک تجربہ کار ادیب کا معیار حاصل کرلیا تھا۔
مرکزی خیال: مطالعے کے شوق نے ابن صفی کو بچپن میں ہی تجربہ کار ادیب بنادیا تھا۔ جس پر گھر والوں نے ان کا مذاق اڑایا تھا۔
2۔ پھر ان دونوں گروپوں میں بھی مزید گروہ بندیاں ہوئیں اور اپنی ڈفلی اپنا راگ والا رجحان تیزی سے پھیلے لگا۔
حوالہ: یہ عبارت نامور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کے تحریر کردہ مضمون’’ میں نے لکھنا کیسے شروع کیا؟ سے لی گئی ہے۔
تشریح: اس عبارت میں ابن صفی نے اپنے زمانے میں اردو ادب میں چلنے والی ترقی پسند تحریک اور جدت پسندی کا فرق واضح کیا۔ ابن صفی لکھتے ہیں کہ وہ ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے مشہور ہونا چاہتے تھے لیکن آزاد نظم انہیں پسند نہیں تھی۔ترقی پسندوں نے مخصوص ذہنیت والوں کو ترقی پسند کہا باقی لوگوں کو وہ جدت پسند ہی ہتے تھے ۔ اس طرح اس زمانے میں ادب میں گروپ بندیاں ہوئیں اور جس کا زور چلا اس نے اپنا نظریہ پیش کردیا۔
مرکزی خیال: ابن صفی نے ترقی پسند تحریک کا زمانہ دیکھا تھا جس کی ایک پہچان آزاد نظم بھی تھی۔ انہیں آزاد نظم پسند نہیں تھی لیکن وہ ترقی پسند شاعر کہلانا چاہتے تھے جب کہ ترقی پسندوں نے ان جیسے لوگوں کو جدت پسند کہا تھا۔
3۔ ان کا خیال ہے کہ مجھے مقصدی ادب پیش کرنا چاہئے اور میرا خیال ہے کہ تفریح بجائے خود ایک مقصد ہے۔
حوالہ: یہ عبارت نامور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کے تحریر کردہ مضمون’’ میں نے لکھنا کیسے شروع کیا؟ سے لی گئی ہے۔
تشریح: اس عبارت میں ابن صفی نے لوگوں کی جانب سے انہیں دئے گئے مشورے کا ذکر کیا ہے۔ جب ابن صفی نے اردو میں جاسوسی ادب کو مقبول کیا تھا۔ لوگ جاسوسی ناولوں کو ادب نہیں مانتے تھے اور انہیں اصلاحی ادب لکھنے کی تلقین کرنے لگے تھے۔ تب ابن صفی کہتے ہیں کہ یکسانیت سے فرار کے ذہن والے میرے ناولوں کو شوق سے پڑھتے ہیں اور یہ بھی ایک قسم کا تعمیری کام ہے۔اور میں جو تفریح فراہم کر رہا ہوں وہ بھی ایک مقصد ہے لوگوں کو سکون پہونچانے کا۔ اس طرح ابن صفی نے اپنے جاسوسی ادب کی اہمیت اجاگر کی ہے۔
مرکزی خیال: ابن صفی نے جو جاسوسی ادب لکھا ہے ایک زمانے تک اسے لوگ بے کار سمجھتے تھے بعد میں ان کی تحریروں کی ادبی اہمیت کے قائل ہوئے اور اسے بھی ایک قسم کی تعمیر کا درجہ دیا گیا۔
اضافی متن کے حوالے
4۔ ’’ اب سے ہزاروں سال پہلے ہم دونوں نے ایک دوسرے کو چاہا تھا۔میں غیر فانی تھی تم مرگئے تھے‘‘۔
حوالہ: یہ عبارت نامور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کے تحریر کردہ مضمون’’ میں نے لکھنا کیسے شروع کیا؟ سے لی گئی ہے۔
تشریح: اس عبارت میں ابن صفی نے اپنے خوابوں کو پیش کیا ہے۔ جب انہوں نے عذرا اور عذرا کی واپسی کتابیں پڑھیں تو وہ عجیب و غریب خوابوں میں ڈوب گئے تھے جس میں ناول کی مرکزی کردار عذرا ان سے اپنی شناسائی کا ذکرکرتی کہ ایک ہزار سال پہلے تم ملے تھے تم نے کئی جنم لئے اب الہ آبادمیں ملے ہو۔ اس طرح کی باتیں پیش کرتے ہوئے ابن صفی نے داستانی ادب کے گہرے مطالعے کے اثرات کا اظہار کیا ہے ۔ ان کے مطالعے کے شوق نے ہی انہیں آگے چل کر بہت بڑا ادیب بنایا۔
مرکزی خیال: ابن صفی نے بچپن میں بہت سی داستانیں پڑھی تھیں اور خوابوں میں انہیں داستانوں کے کردار ملتے جو ان سے اس طرح کی باتیں کرتے تھے۔
5۔ ’’ ان کی دانست میں شاید میں جھک مار رہا ہوں۔حیات و کائنات کا کون سا ایسا مسئلہ ہے جسے میں نے اپنی کسی نہ کسی کتاب میں نہ چھیڑا ہو۔
حوالہ: یہ عبارت نامور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کے تحریر کردہ مضمون’’ میں نے لکھنا کیسے شروع کیا؟ سے لی گئی ہے۔
تشریح: اس عبارت میں ابن صفی نے انہیں ادب کی خدمت کا مشورہ دینے والوں کا ذکر کیا ہے۔ جاسوسی ادب کے مخالفین انہیں اکثر مشورہ دیتے رہے کہ وہ جاسوسی ادب نہ لکھ کر کچھ ادب کی خدمت کریں۔ اس پر ابن صفی اپنی تحریروں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے جاسوسی ادب لکھ کر کوئی غلط کام نہیں کیا۔ میری تحریروںمیں زندگی کا کونسا مسئلہ نہیں ہے جو بیان نہ ہوا ہو۔ ابن صفی نے درست کہا ہے کہ ان کی تحریروں میں دنیا جہاں کی ہرقسم کی باتیں مل جاتی ہیں۔
6۔ ’’ یہ میرا مشن ہے کہ آدمی قانون کا احترام کرنا سیکھے‘‘۔
حوالہ: یہ عبارت نامور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کے تحریر کردہ مضمون’’ میں نے لکھنا کیسے شروع کیا؟ سے لی گئی ہے۔
تشریح: اس عبارت میں ابن صفی نے اپنے جاسوسی ناولوں کی افادیت پر اظہار خیال کیا ہے کہ ان کے کردار فریدی ہو یا عمران وہ لوگوں کو قانون کا احترام سکھاتے ہیں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ لوگ قانون کا احترام کرنا سیکھیں۔ اس کے لیے انہوں نے مشورہ دیا کہ ہماری نصابی کتابوں میں قانون کو شامل کیا جائے۔جب قانون سے لا علمی پر قانون توڑنے پر انسان کو سزا مل سکتی ہے تو ہر انسان کا حق ہے کہ وہ قانون سیکھے۔ اور میری کتابوں نے یہی کام کیا ہے۔
مرکزی خیال: ابن صفی نے اپنے جاسوسی ناولوں کو قانون سے آگہی کا ذریعہ قرار دیا ہے اور کہا کہ قانوں کی تعلیم ہمارے نصاب کا حصہ ہونا چاہئے۔
II پانچ سطروں میں جواب لکھیے۔
1۔ ابن صفی اپنے مطالعے کا شوق کس طرح پورا کرتے تھے۔
جواب: ابن صفی کو بچپن سے کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ گھر میں ناول اور داستانوں کی بہت سی کتابیں تھیں۔لیکن بچوںکو یہ کتابیں پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ابن صفی چوری سے چھت پر کتابیں لے جاکر پڑھا کرتے تھے۔ جب ان کی چوری پکڑی گئی تو ان کی والدہ نے ان کے مطالعے کے شوق کی تائید کی۔ اس طرح بچپن میں ہی ابن صفی نے کئی کتابوں کا مطالعہ کرلیا۔ اور افسانے لکھنے لگے تھے۔
2۔ ابن صفی نے کس عمر میں لکھنا شروع کیا۔ اس تعلق سے کوئی دلچسپ واقعہ بیان کیجئے۔
جواب: ابن صفی نے بچپن ہی سے افسانے لکھنے شروع کردئے تھے۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو انہوں نے ہفت روزہ ’’ شاہد‘‘ کے لئے اپنا افسانہ اشاعت کے لیے بھیجا۔ رسالے کے مدیر نے افسانہ پڑھ کر کسی تجربہ کار معمر ادیب کا سمجھ کر اسے بڑے اعزاز کے ساتھ شائع کیا۔ اور مصنف کے نام کے ساتھ نتیجہ فکر مصور جذبات کے الفاظ شامل کردئے۔ابن صفی کے گھر والوں نے جب اپنے بچے کے یہ کارنامے دیکھے تو اسے مذاق کا موضوع بنایا۔
3۔ ابن صفی کے مطابق بچوں کے نصاب میں قانونی تعلیم کیوں ہونی چاہئے۔
جواب: ابن صفی نے اپنے جاسوسی ناولوں کی افادیت پر اظہار خیال کیا ہے کہ ان کے کردار فریدی ہو یا عمران وہ لوگوں کو قانون کا احترام سکھاتے ہیں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ لوگ قانون کا احترام کرنا سیکھیں۔ اس کے لیے انہوں نے مشورہ دیا کہ ہماری نصابی کتابوں میں قانون کو شامل کیا جائے۔جب قانون سے لا علمی پر قانون توڑنے پر انسان کو سزا مل سکتی ہے تو ہر انسان کا حق ہے کہ وہ قانون سیکھے۔ اور میری کتابوں نے یہی کام کیا ہے۔اس طرح نے ابن صفی نے بچوں کے نصاب میں قانون کی تعلیم کی شمولیت کی وکالت کی ہے۔
III ایک لفظ یا جملے میں جواب لکھیے۔
1۔ خواجہ عمر وکے شاگردوں میں ابن صفی کا پسندیدہ کردار کونسا تھا۔
جواب: مہتر برق فرنگی
2۔ ہفت روزہ’’ شاہد‘‘ کے ایڈیٹر کا نام کیا تھا۔
جواب عادل رشید
3۔ طغرل فرغان کے نام سے ابن صفی کس قسم کے مضامین لکھا کرتے تھے۔
جواب: طنزیہ مضامین
4۔ ابن صفی کے پہلے جاسوسی ناول کا نام کیا تھا۔
جواب: دلیر مجرم
5۔ ابن صفی نے اپنے کس ناول میں ان کتابوں کی تفصیل دی ہے جن کے پلاٹ انگریزی سے لیے گئے تھے۔
جواب: ناول زمین کے بادل کے پہلے ایڈیشن میں
IV پندرہ سطروں میںجواب لکھیے۔
1۔ ابن صفی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں۔
جواب: ( جواب کے لیے مصنف کا تعارف پڑھیے)
2۔ ابن صفی نے جاسوسی ناولوں کی راہ کیوں منتخب کی۔ان کا اصل مشن کیا تھا۔
3۔ مقصدی ادب سے متعلق ابن صفی کے خیالات کیا تھے۔
جواب: (جواب کے لئے سبق کا خلاصہ پڑھیں)
0 تبصرے