Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

میرا ا سکول موہن داس کرم چند گاندھی

مصنف کا تعارف:
    ہندوستان کی آزادی کے رہنما بابائے قوم مہاتما گاندھی کا اصل نام موہن داس کرم چند گاندھی تھا۔ وہ 2۔اکتوبر1869ء کو گجرات کے ساحلی شہر پور بندر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام کرم چند گاندھی تھا۔ گاندھی جی نے پور بندر کے ایک مڈل اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گجرات کے سلمداس کالج سے میٹرک کامیاب کیا۔ اعلی تعلیم کے لیے لندن گئے۔اور لندن یونیورسٹی سے بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ جنوبی افریقہ میں کچھ دن رہے۔ انگریزوں کی غلامی سے ہندوستان کو آزاد کرانے تحریک چلانے کی خاطر ہندوستان واپس آگئے۔ گاندھی جی ہندوستان کی تاریخ کے عظیم رہنما تھے۔ انہوں نے ہندوستان میں عدم تشدد کے طریقہ کو اختیار کیا اور انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا۔چمپارن تحریک۔ نمک کی ستیہ گرہ۔ ہندوستان چھوڑ دو تحریک۔ تحریک عدم تعاون۔ ترک موالات کی تحریک ان کی جانب سے چلائی جانے والی اہم تحریکات ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد ہندو مسلم فسادات کو روکنے انہوں نے مرن برت رکھا۔ انہیں بابائے قوم کا لقب دیا گیا۔ انہوںنے جنوبی افریقہ اور ہندوستان میں چھوت چھات اور نسلی امتیاز کے خلاف جد وجہد کی۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ اپنے مذہب کے اصولوں اور عقائد پر سختی سے کاربند تھے۔وہ مذہبی رواداری کے قائل تھے۔ انہوں نے دیگر مذہبی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ وہ اہنسا اور سچائی کے علمبردار تھے۔گاندھی جی کو لکھنے کا شوق تھا۔ انہوں نے کئی سال تک گجراتی‘ہندی اور انگریزی اخبارات کی ادارت کی۔ ان کی ایک اہم تصنیف ان کی سوانح حیات’’My Experiments With Truth‘‘ ۔ ہندوستان کی آزادی کے معمار اور ایک عظیم انسان کو30جنوری1948ء کو ایک انتہا پسند ناتھو رام گوڈسے نے انہیں ان کے آشرم میں گولی مارکر ختم کردیا۔گاندھی جی کی آپ بیتی سے ایک حصہ’’ میرا اسکول‘‘ ہے جس میں انہوں نے اپنے زمانہ طالب علمی کی یادوں کو پیش کیا ہے۔
خلاصہ: گاندھی جی نے اپنی آپ بیتی’’My Experiments With Truth‘‘ ( سچ کے ساتھ میرے تجربات) میں اپنے بچپن اور طالب علمی کے واقعات کو پیش کیا ہے۔ چنانچہ اپنی آپ بیتی میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ میرا بچپن پوربندر میں گزرا۔ قصبے کے اسکول میں جاتا تھا۔ پہاڑے یاد کرنا مشکل تھا۔میں بھی دیگر بچوںکی طرح اپنے اساتذہ کو مختلف ناموں سے پکارتا تھا۔ سات سال کی عمر میں پوربندر چھوڑکر والد صاحب کے ساتھ راج کوٹ آگیا اور پرائمری اسکول میں داخل ہوا۔ بارہ سال کی عمر میں مقامی ہائی اسکول میں داخل ہوا۔ اس زمانے میں شائد ہی کبھی میں نے جھوٹ بولا ہو۔لوگوں سے الگ تھلگ رہتا تھا۔ شرماتا تھا۔ کتابیں میری دوست تھیں۔روزانہ اسکول وقت پر پہونچتا تھا اور چھٹی ہوتے ہی سیدھے گھر آتا تھا تاکہ راستے میں کوئی مجھ سے بات نہ کرے۔ اس بات کا ڈ ررہتا تھا کہ لوگ کہیں میرا مذاق نہ اڑائیں۔ انہوں نے اپنے بچپن کا ایک واقعہ بتایا کہ ایک انگریزی کے استاد گائلس صاحب نے ایک لفظ غلط لکھنے پر اسے بازو کے لڑکے سے نقل کرکے لکھنے کی تلقین کی تھی۔ لیکن گاندھی جی نے کسی دوسرے کا دیکھ کر لکھنا گوارا نہ کیا۔ گاندھی جی لکھتے ہیں کہ انہوں نے کبھی اساتذہ کی غلطی نہیں پکڑی اور نہ ہی ان کی یا بڑوں کی بے عزتی کی۔ انہوںنے بچپن کے دو واقعات سنائے کہ والد صاحب کی جانب سے لائی گئی کتاب’’ شرون پتری بھگتی ناٹکا ‘‘ پڑھی ۔ جس میں ایک کردار اپنے اندھے والدین کو مقدس سفر پر لے جارہے تھے۔ جس کا گاندھی جی کی زندگی پر گہرا اثر پڑا۔ دوسرا واقعہ ڈراما ہرش چندر دیکھنے کا تھا جس نے گاندھی جی کو بہت متاثر کیا تھا اور وہ بار بار اس ڈرامے کو دیکھنا چاہتے تھے۔کیوں کہ اس ڈرامے میں سچائی کا سبق پڑھایا گیا تھا۔گاندھی جی آگے اپنے حالات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہائی اسکول میں اساتذہ ان کی عزت کرتے تھے۔انہیں مختلف جماعتوں میں کامیابی پر انعام اور وظیفے بھی ملے۔بچپن میں وہ کافی حساس تھے۔ ایک مرتبہ اسکول میں ان کی پٹائی ہوئی تھی۔ گاندھی جی کو احساس تھا کہ مار کی تکلیف نہ تھی بلکہ یہ احساس کہ میں برا ہوں۔ زندگی میں وہ صرف اچھے بننا چاہتے تھے۔ کبھی اپنی کامیابی پر فخر نہیں کیا۔مڈل اسکول میں ان کے استاد داب جی ایڈل جی نے طالب علموں کے لیے کرکٹ اور جمناسٹک لازمی قرار دئیے تھے۔ گاندھی جی کو ان کھیلوں میں دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن وہ جسمانی طور پر مضبوط تھے۔دیگر طالب علم اسکول سے فارغ ہوکر کھیل میںمصروف ہوجاتے تھے۔ گاندھی جی کھیلنے کے بجائے سیدھے گھر واپس آتے تھے اور اپنے بیمار باپ کی تیمارداری میں لگ جاتے تھے۔انہوں نے اپنے استاد جمی صاحب سے درخواست کی تھی کہ انہیں جمناسٹک کھیلنے پر مجبور نہ کیا جائے لیکن ان کے استاد نہیں مانے۔جس کے سبب گاندھی جی کو جمناسٹک کا کھیل پسند نہیں تھا۔ہر سنیچر کو دوپہر اسکول کو چھٹی ہوتی تھی اور چار بجے جمناسٹک کے لیے دوبارہ اسکول جانا پڑتا تھا۔ ایک سنیچر گھڑی نہ ہونے اور موسم کے سبب انہیں وقت کا اندازہ نہیں ہوا۔ سب لڑکے جاچکے تھے۔ دوسرے دن غیر حاضری کا سبب پوچھا گیا تو گاندھی نے سچ سچ بتا دیا تھا کہ انہیں اسکول پہونچنے میں تاخیر کیوں ہوئی۔ ان کے استاد نے ان کی بات نہیں مانی اور انہیں ایک آنہ یا دو آنے جرمانہ ہوا۔ گاندھی جی کو افسوس ہوا کہ سچ بولنے کے باوجود ان کو سزا کے طور پر جرمانہ دینا پڑا۔ان کے والد نے ایک خط لکھا کہ اسکول کے بعد گاندھی جی کی گھر پر ضرورت ہے جس کے سبب گاندھی جی کو جمناسٹک کے کھیل سے چھٹی مل گئی۔ طالب علمی کی زمانے میں ان کے عجیب و غریب خیالات تھے۔ جیسے خوبصورت لکھائی کو وہ غیر ضروری سمجھتے تھے۔گاندھی جی نے لکھا کہ اسکول کے زمانے میں ہی ان کی شادی ہوگئی تھی۔ جس کے سبب ایک تعلیمی سال بربادہوا۔ ان کے اساتذہ انہیں جلدی آگے بڑھانا چاہتے تھے یہی وجہہ ہے کہ چھٹی جماعت میںوہ صرف چھ مہینے رہے۔ چوتھی جماعت سے اسکول میں انگریزی پڑھائی جاتی تھی۔جیومٹری نیامضمون تھا جسے سمجھنے کے لیے ابتدا میں انہیں دقت محسوس ہوئی لیکن بعد میں انہوں نے اس پر عبور حاصل کرلیا۔ان کا خیال تھا کہ جیومٹری میں رٹنے کی ضرورت نہیں بلکہ درست نتیجہ نکالنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ سنسکرت بھی ان کے لیے مشکل مضمون تھا۔سنسکرت کے قواعد زبانی یاد دلائے جاتے تھے۔ اس مضمون کے استاد سخت گیر تھے۔ فارسی کے استاد نرم تھے۔گاندھی جی ان کو پسند کرتے تھے۔لڑکوں کا خیال ہے کہ فارسی آسان مضمون ہے ۔لیکن گاندھی جی نے فارسی نہیں پڑھی۔ایک دن جب وہ فارسی کلاس میں بیٹھ گئے تو سنسکرت کے استاد نے انہیں بلا کرسمجھایا کہ اگر انہیں سنسکرت مشکل لگتی ہے تو وہ ان کے پاس بیٹھ کر سیکھتے رہیں۔ آسان ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب تم بڑے ہوجائوگے تو تم سنسکرت کی کتابیں پڑھنے لگو گے۔ گاندھی جی استاد کے کہنے پر سنسکرت کی کلاس میں واپس آگئے۔ اور آگے انہیں احساس ہوا کہ سنسکرت سیکھنے سے انہیں مذہبی کتابیں سمجھنے میںمدد ملی۔ اس طرح گاندھی جی نے اپنے اسکول کے زمانے کی یادوں کو اپنی آپ بیتی میں پیش کیا۔
مرکزی خیال: گاندھی جی نے اپنی آپ بیتی میں ’’ میرااسکول‘‘ کے نام سے اپنے زمانہ طالب علمی کے واقعات کو دلچسپ انداز میں پیش کیا۔ انہون نے جو واقعات بیان کئے اس سے گاندھی جی کے بچپن کی سادگی اور ان کی پسند اور ناپسند کا حال معلوم ہوتا ہے۔ گاندھی جی بچپن میں بہت شرمیلے تھے۔ان کی کتابوں سے دوستی تھی اور کھیلوں سے انہیں نفرت تھی۔ انہوں نے بچپن میں سچ بولا اور اپنے اساتذہ اور بزرگوں کی عزت کی۔گاندھی جی کے بچپن سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ زمانہ طالب علمی میں اساتذہ کی عزت کرنی چاہئے اور حصول تعلیم کے مقصد کو ہمیشہ دھیان میں رکھنا چاہئے۔ تب ہی انسان عظیم بن سکتا ہے۔
سوالات   I    دس سطروں میں جواب لکھئے۔
    1۔    گاندھی جی کے حالات زندگی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں۔
جواب:        (جواب کے لیے مصنف کے حالات زندگی پڑھیں)
    2۔    گاندھی جی کے زمانہ طالب علمی کے واقعات بیان کیجئے۔
    3۔    ’’ میرا اسکول‘‘ آپ بیتی سے آپ نے کیا سبق حاصل کیا ۔ لکھیے۔
جواب:        (جواب کے لیے سبق کا خلاصہ پڑھیں)
 II    عبارت فہمی      مندرجہ ذیل عبارت کو غور سے پڑھئے اور ذیل میں دئے گئے سوالات کے جوابات لکھئے۔
    ’’ ایک دن والد کی لائی ہوئی کتاب’’ شرون پتری بھگتی ناٹکا‘‘ میں نے(گاندھی جی) بڑی دلچسپی سے پڑھی۔شرون(اندھے ماں باپ کا خدمت گزار بیٹاجو دھوکے میں اچاریہ دشرتھ کے ہاتھوں مارا گیا تھا) کی ایک تصویر بھی دیکھی تھی۔ جس میں وہ اپنے اندھے ماں باپ کو مقدس سفر پر لے جارہے تھے۔اس     کتاب اور تصویر نے میرے ذہن پر گہرا اثر چھوڑا ۔ دل نے کہا یہ ایک ایسی مثال ہے جس سے سبق لیا جاسکتا ہے۔اسی دوران ڈرامہ ہرش چندر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔مین اپنے دن سے سوال کرتا کہ آخر ہم ہریش چندر جیسے سچے انسان کیوں نہیں بن سکتے۔ دل کہتا سچائی کا راستہ اپنائو۔ چاہے ہرش چندر کی طرح مشکلوں سے کیوں نہ گزرنا پڑے۔‘‘
    ایک لفظ یا جملے میں جواب لکھئے۔
    1۔    گاندھی جی کے والد نے کونسی کتاب لائی۔
جواب:        شرون پتری بھگتی ناٹکا
    2۔    شرون کمار کو کس نے مارا۔
جواب:        راجا دشرتھ
ٍ    3۔    اندھے ماں باپ کی خدمت کون کیا کرتا تھا۔
جواب:        شرون اپنے اندھے ماں باپ کی خدمت کیا کرتا تھا۔
    4۔    گاندھی جی نے کونسا ڈرامہ دیکھا۔(جواب:ہرش چندر)
    5۔    مشکلوں سے گزر کر انسان کو کونسا راستہ اپنانا چاہئے۔
جواب:        مشکلوں سے گزر کر بھی سچائی کا راستہ اپنانا چاہئے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے