Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے ڈاکٹروں کے ۔ مجتبٰی حسین

 ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے ڈاکٹروں کے ۔  مجتبٰی حسین

مصنف کا تعارف:
    مجتبیٰ حسین ( پیدائش1936ء) اردوکے نامور مزاح نگار ہیں۔15جولائی1936ء کو گلبرگہ کرناٹک میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام مولوی احمد حسین تھا۔ابتدائی تعلیم گلبرگہ میںہوئی۔اعلیٰ تعلیم1956ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے حاصل کی۔1962ء میں محکمہ اطلاعات میں ملازمت کا آغاز کیا۔1972ء میں گجرال کمیٹی کے ریسرچ شعبہ سے وابستہ ہوئے۔اور1992ء میں این سی ای آرٹی سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہونے کے بعد سے حیدرآباد میں مقیم ہیں۔
    مجتبیٰ حسین دور حاضر کے مشہور مزاح نگار ہیں۔انہوں نے مزاح نگاری کا آغاز روزنامہ سیاست حیدرآباد کے کالم’’ شیشہ و تیثہ‘‘ سے کیا۔زندہ دلان حیدرآباد کو فروغ دینا میں انہوں نے غیر معمولی کردار ادا کیا۔یہ ملک کے پہلے مزاح نگار ہیں جنہیں حکومت نے پدم شری کے باوقار اعزاز سے نوازا۔مجتبیٰ حسین نے مزاحیہ مضامین کے علاوہ کئی خاکے اور سفرنامے بھی لکھے۔ان کے مزاحیہ مضامین پر مشتمل 22سے ذائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ اردوکے علاوہ ہندی ۔جاپانی اور اڑیہ زبانوں میں بھی ان کی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔تکلف برطرف۔قطع کلام۔بہرحال۔بالآخر۔الغرض اور آخر کار ان کے مضامین کے اہم مجموعے ہیں۔خاکوں میں آدمی نامہ۔سو ہے وہ بھی آدمی۔چہرہ در چہر۔کیسے کیسے ۔ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کا ایک سفر نامہ جاپان چلو بھی مقبول ہوا۔مجتبیٰ حسین کو ادبی خدمات کے عوض دس سے زیادہ ایوارڈ بھی ملے۔جن میں غالب ایوارڈ۔مخدوم ایوارڈ۔میر تقی میر ایوارڈ قابل ذکر ہیں۔ان کی طویل خدمات کے اعتراف میں کرناٹک کی گلبرگہ یونیورسٹی نے2010ء میں انہیںڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔روزنامہ سیاست میں گزشتہ کئی سال سے ان کا مزاحیہ کالم شائع ہورہا ہے۔
خلاصہ
    مجتبیٰ حسین ( پیدائش1936ء) اردوکے نامور مزاح نگار ہیں۔انہوں نے اپنے مزاحیہ مضمون’’ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے ڈاکٹروں کے‘‘ میں مزاحیہ انداز میں ڈاکٹروں کے ناز و نخروں کو پیش کیا ہے۔ مضمون کے آغاز میں وہ کہتے ہیں کہ انہیں پتہ نہیںکہ وہ پہلی بار کب بیمار ہوئے تھے لیکن کبھی وہ اچھے بھی نہیںرہے اکثر بیماریوں میں گھرے رہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بیماری کا تو مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن ڈاکٹر کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔لیکن وہ اپنی صحت کی داد دیتے ہیں کہ ان کا علاج کرتے ہوئے کئی ڈاکٹر اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور وہ ان ڈاکٹروں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں۔کئی مرتبہ ڈاکٹروں نے ہماری جانب سے مایوسی کا اظہار کردیا رشتے دار خوش ہوئے لیکن ہم موت کے منہ سے بچ کر آگئے۔لیکن موت کے پنجے سے نکل کر واپس ڈاکٹر کے پنجے میں آگئے ۔جی کرتا ہے کہ مرجائیں تاکہ ڈاکٹر کے بل سے چھٹکارا ملے۔لیکن انسان کی جینے کی ہوس اسے ڈاکٹروں کے ناز اٹھانے کے لیے بچا لیتی ہے۔ ایک مریض کا واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ مریض سے آخری خواہش پوچھنے پر وہ دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں کہ وہ بیماریاں بھی بدلتے ہیں اور ڈاکٹر بھی۔ہم جب بھی بیمار ہوئے کسی نئے مرض میں مبتلا ہوئے اور ڈاکٹر کو بھی پریشان کردیا۔ سردی بخار کھانسی تو ہمارے لیے عام بیماریاںہیں۔بیماریوں کے اس تجربے کے بعد ہمیں شکایت ہے کہ کسی یونیورسٹی نے انہیں ایم بی بی ایس کی ڈگری کیوں نہیں دی۔ کیوں کہ اب ہم کسی ڈاکٹر کی نبض دیکھ کر یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کتنی فیس لے گا۔انہوں نے ڈاکٹروں کے ناز اٹھانے کا قصہ شروع کرتے ہوئے کہا کہ زندگی میں پہلی مرتبہ ایک سستے مریض قسم کے ڈاکٹرکے پاس گئے جس کے مطب میںلکھا تھا یہاں مریضوں کو وزیٹنگ فیس دی جاتی ہے۔مریض ڈاکٹر صاحب کو اپنی سردی کھانسی بخار کے بارے میں کہتا ہے تو ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں اس میں تو میں بھی مبتلا ہوں۔ آخر دونوں مل کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ دونوںکو ہی کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔بعد میں پتہ چلا کہ یہ حقیقی ڈاکٹر نہیں بلکہ سائڈ بزنس چلاتے ہیں ان کا تو تجہیز و تکفین کا کاروبار ہے۔اس کے بعد انہوں نے ایسے ڈاکٹروں کا انتخاب کیا جہاں مریضوں کا جلسہ عام ہو۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ انتظار بہت کرنا پڑتا ہے۔انتظار کی مدت کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے مزاحاً کہا کہ گھر سے چلے تو صرف کھانسی تھی بعد میں اعضا شکنی اور بخار آگیا۔اور جب ڈاکٹر سے ملنے لگے تو وہ ڈانٹنے لگے کہ آپ دم نکلتے وقت آتے ہو۔تب مجتبیٰ حسین کہتے ہیں کہ صبح جب آپ کے پاس آیا تو اچھا تھا اب یہ حالت ہوئی ہے خدا کی قسم مجھے ’’بیماری‘‘ نہیں بلکہ ’’باری‘‘ ہوئی ہے۔ڈاکٹر نے ان کے منہ میں فوری تھرمامیٹر لگا دیا کہ اب وہ مزید کچھ نہ بولیں۔جب وہ خواتین کے وارڈ میں جاتے ہیں تو سب کے منہ میں تھرمامیٹر لگا دیتے ہیں تاکہ وہ بات نہ کرسکیں اور وہ آرام سے مریضوں کو دیکھ سکیں۔مریضوں کے ہجوم کے سبب ڈاکٹر مریض پر توجہ نہیں دے پاتے اور وہ ایک کا نسخہ دوسرے کو دے دیتے ہیں۔ ایک مریض کو پیٹ کے درد کی شکایت پر ڈاکٹر نے اس کی عینک تبدیل کرانے کا مشورہ دیا کیوں کہ وہ بینائی کمزور ہونے کے سبب اناپ شناپ کھالے رہا تھا۔ایک مرتبہ مجتبیٰ حسین ایک ڈاکٹر سے اپنے ماموں کے مرض کیفیت سنانے گئے تھے لیکن ڈاکٹر نے ان کے منہ میں تھرمامیٹر لگا کر انہیں انجکشن تک دے دیا۔ڈاکٹر نے اپنی بات کو درست قرار دینے کے لیے کہا کہ یہ کیفیت بولنے کا انجکشن تھا ۔ڈاکٹر بھاری بھاری دوائیں لکھنے کے ساتھ ڈھیر ساری غذائیں کھانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں جب انسان کے پاس پیسے نہ ہوں تو وہ کیا کھائے گا ۔ اس لیے مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر دوائی کی پرچی کے ساتھ پیسے بھی دے تو بھلا ہوگا۔ڈاکٹروں کی اہم عادت برے خط کے بارے میں مجتبیٰ حسین نے لطیفہ بیان کیا کہ ڈاکٹرکی محبوبہ اس کے نام لکھا گیا خط کیمسٹ سے پڑھواتی تھی۔ایک مرتبہ ڈاکٹر نے جو نسخہ لکھا اسے کیمسٹ بھی نہ پڑھ پایا ڈاکٹر سے رجوع ہوئے تو کہا کہ یہ کل کا لکھا ہے کل سے آج تک علم طب نے بہت ترقی کرلی ہے میں بھی اپنا خط نہیںپڑھ سکتا۔ڈاکٹر نما کچھ ڈاکو بھی ہوتے ہیں جو کمرہ میں لیٹ جانے اور آنکھ بند کرنے کا حکم دیتے ہیں اور جب آنکھ کھلے تو جیب سے رقم غائب ہوجاتی ہے۔ڈاکٹروں کے ناز اٹھاتے اٹھاتے ہم تھک گئے ہیںاور اب اپنا فیملی ڈاکٹر رکھ لیا ۔ اور اسے اولاد کی طرح دیکھتے ہیں لوگ اولادکے بارے میں پوچھتے ہیں تو اس میں ایک فیملی ڈاکٹر کا اضافہ بھی کردیتا ہوں۔ اس طرح مجتبیٰ حسین نے ڈاکٹروں کے ناز و نخروں کو مزاح کا موضوع بنایا۔
مرکزی خیال:مجتبیٰ حسین نے اس مضمون میں ڈاکٹروں سے متعلق بہت سے لطیفے پیش کئے اور ہمارے سماج میں موجود مختلف قسم کے ڈاکٹروں کے ناز و نخروں اور کیفیات کو بیان کیا۔ مجتبیٰ حسین کے مشاہدات گہرے ہیں اور وہ انہیں مزاح کے عنصر میں پیش کرتے ہیں تو بات میں دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے۔
سوالات
I    دس سطروں میں جواب لکھیے۔
    1۔    مجتبیٰ حسین نے افتتاحی ڈاکٹر کا احوال کس طرح قلمبند کیا ہے۔
جواب:        مجتبیٰ حسین ( پیدائش1936ء) اردوکے نامور مزاح نگار ہیں۔انہوں نے اپنے مزاحیہ مضمون’’ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے ڈاکٹروں کے‘‘ میں مزاحیہ انداز میں ڈاکٹروں کے ناز و نخروں کو پیش کیا ہے۔ مضمون کے آغاز میں وہ کہتے ہیں کہ انہیں پتہ نہیںکہ وہ پہلی بار کب بیمار ہوئے تھے لیکن کبھی وہ اچھے بھی نہین رہے اکثر بیماریوں میں گھرے رہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بیماری کا تو مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن ڈاکٹر کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔لیکن وہ اپنی صحت کی داد دیتے ہیں کہ ان کا علاج کرتے ہوئے کئی ڈاکٹر اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور وہ ان ڈاکٹروں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں۔کئی مرتبہ ڈاکٹروں نے ہماری جانب سے مایوسی کا اظہار کردیا رشتے دار خوش ہوئے لیکن ہم موت کے منہ سے بچ کر آگئے۔لیکن موت کے پنجے سے نکل کر واپس ڈاکٹر کے پنجے میں آگئے ۔جی کرتا ہے کہ مرجائیں تاکہ ڈاکٹر کے بل سے چھٹکارا ملے۔لیکن انسان کی جینے کی ہوس اسے ڈاکٹروں کے ناز اٹھانے کے لیے بچا لیتی ہے۔ ایک مریض کا واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ مریض سے آخری خواہش پوچھنے پر وہ دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں کہ وہ بیماریاں بھی بدلتے ہیں اور ڈاکٹر بھی۔ہم جب بھی بیمار ہوئے کسی نئے مرض میں مبتلا ہوئے اور ڈاکٹر کو بھی پریشان کردیا۔ سردی بخار کھانسی تو ہمارے لیے عام بیماریاںہیں۔بیماریوں کے اس تجربے کے بعد ہمیں شکایت ہے کہ کسی یونیورسٹی نے انہیں ایم بی بی ایس کی ڈگری کیوں نہیں دی۔ کیوں کہ اب ہم کسی ڈاکٹر کی نبض دیکھ کر یہ بتا سکتے ہین کہ وہ کتنی فیس لے گا۔انہوں نے ڈاکٹروں کے ناز اٹھانے کا قصہ شروع کرتے ہوئے کہا کہ زندگی میں پہلی مرتبہ ایک سستے مریض قسم کے ڈاکٹرکے پاس گئے جس کے مطب میںلکھا تھا یہاں مریضوں کو وزیٹنگ فیس دی جاتی ہے۔مریض ڈاکٹر صاحب کو اپنی سردی کھانسی بخار کے بارے میں کہتا ہے تو ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں اس میں تو میں بھی مبتلا ہوں۔ آخر دونوں مل کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ دونوںکو ہی کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔بعد میں پتہ چلا کہ یہ حقیقی ڈاکٹر نہیں بلکہ سائڈ بزنس چلاتے ہیں ان کا تو تجہیز و تکفین کا کاروبار ہے۔ اس طرح مجتبیٰ حسین نے پہلے ڈاکٹر کا حال بیان کیا۔
    2۔دواخانہ میں اپنی باری کے انتظار میںمریض کو کن حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
جواب:        مجتبیٰ حسین ( پیدائش1936ء) اردوکے نامور مزاح نگار ہیں۔انہوں نے اپنے مزاحیہ مضمون’’ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے ڈاکٹروں کے‘‘ میں مزاحیہ انداز میں ڈاکٹروں کے ناز و نخروں کو پیش کیا ہے۔ انہوں نے ایسے ڈاکٹروں کا انتخاب کیا جہاں مریضوں کا جلسہ عام ہو۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ انتظار بہت کرنا پڑتا ہے۔انتظار کی مدت کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے مزاحاً کہا کہ گھر سے چلے تو صرف کھانسی تھی بعد میں اعضا شکنی اور بخار آگیا۔اور جب ڈاکٹر سے ملنے لگے تو وہ ڈانٹنے لگے کہ آپ دم نکلتے وقت آتے ہو۔تب مجتبیٰ حسین کہتے ہیں کہ صبح جب آپ کے پاس آیا تو اچھا تھا اب یہ حالت ہوئی ہے خدا کی قسم مجھے ’’بیماری‘‘ نہیں بلکہ ’’باری‘‘ ہوئی ہے۔ڈاکٹر نے ان کے منہ میں فوری تھرمامیٹر لگا دیا کہ اب وہ مزید کچھ نہ بولیں۔

    3    ’’ ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے ڈاکٹروں‘‘ کے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔
جواب:        ( جواب کے لیے خلاصہ پڑھیں)
    4    مجتبیٰ حسین کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں ۔
جواب:        ( جواب کے لیے مصنف کا تعارف پڑھیں)۔
II    عبارت فہمی
    درج ذیل عبارت کا مطالعہ کریں اور دئیے گئے سوالات کے جوابات لکھیں۔
    ’’ابراہیم قطب شاہ سات برس تک وجیا نگر میں رہا۔اس دوران اسے تلنگی زبان اور تلنگی کلچر سے ایک خاص شغف ہوگیا تھا۔اس نے وہیں ایک خاتون’’ بھاگیرتی‘‘ سے نکاح کیا۔جب یہ گولکنڈہ کو واپس آیا تو جگدیو رائو نے اس کی بادشاہت کا اعلان کیا۔ابراہیم نے تیس سال تک حکومت کی۔اس کا دربار تلگو شاعروں سے بھرا رہتا تھا۔اسی کے زمانے میں خالص تلگو شاعری کو فروغ ہوا۔اس نے ایک تلگو شاعر پونا گنٹی تلنگے ناریا کو سلطنت کا ملک الشعرا مقرر کیا۔لوگ اسے عقیدت سے’’ملکی بھرام‘‘کہتے تھے۔ابراہیم کے بیٹے محمد قلی قطب شاہ نے ہی شہر حیدرآباد کو بسایا تھا۔

    1۔    کس نے ابراہیم کی بادشاہت کا اعلان کیا۔
جواب:        جگدیو رائو
     2۔    ابراہیم کتنے برس تک وجیا نگر میں رہا۔
جواب:        سات برس
    3۔    ابراہیم کی بیوی کون تھی۔
جواب:        بھاگیرتی
    4۔    ابراہیم کے دربار میںکون ملک الشعرا مقرر ہوا۔
جواب:        پونا گنٹی تلنگے ناریا
    5۔    شہر حیدرآباد کو کس نے بسایا۔
جواب:        محمد قلی قطب شاہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے