Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

انٹر میڈیٹ سال اول افسانہ قمیص رفیعہ منظور الامین

انٹر میڈیٹ سال اول افسانہ قمیص  رفیعہ منظور الامین

مصنفہ کا تعارف

    رفیعہ منظور الامین(1930-2008) حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والی اردو کی مشہور افسانہ نگار گزری ہیں۔ حیدرآباد کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئیں۔والد کا نام محمد عبدالمجید تھا۔ابتدائی تعلیم اور میٹرک کاچی گوڑہ اسکول سے کیا۔گریجویشن ویمنس کالج کوٹھی سے کیا۔انہیں بچپن ہی سے کہانیاں لکھنے کا شوق تھا۔انہوں نے تقریباًدو سو افسانے لکھے۔وہ اچھی ناول نگار بھی تھیں۔ ان کا ناول ’’ سارے جہاں کا درد‘‘ کشمیر کے حالات پیش کرتا ہے۔جو بین الاقوامی سطح پر منظور ہوا۔

 ان کا ایک مقبول ناول’’عالم پناہ‘‘ بھی ہے جس پر سیریل ’’فرمان‘‘ بھی بنایا گیا۔رفیعہ منظور الامین نے اپنے افسانوں میںسماجی مسائل‘اور عورتوںکے مسائل کو پیش کیا۔’’ آہنگ ‘‘۔دستک سی درد دل پر‘‘ ان کے افسانوی مجوعے ہیں۔ان کے سائنسی مضامین کا مجموعہ’’ سائنسی زاویے‘‘ بھی شائع ہوا۔انہوں نے12ٹیلی فلمیں لکھیں جو دوردرشن کے مختلف مراکز سے پیش ہوئیں۔رفیعہ منظور الامین کا انتقال30جون2008کو حیدرآباد میں ہوا۔ان کا ایک افسانہ’’ قمیص‘‘ ہے ۔ جس کا خلاصہ پیش ہے۔

خلاصہ:

     رفیعہ منظور الامین(1930-2008) حیدرآباد کی تعلق رکھنے والی اردو کی مشہور افسانہ نگار گزری ہیں۔انہوں نے افسانہ’’ قمیص‘‘ میں ہندوستان کی آزادی سے قبل ذات پات کے نظام کے تحت سماج میں پائے جانے والے عدم توازن کو پیش کیا۔ افسانے کا مرکزی کردار ایک ہریجن ہریا ہے۔ جو ایک اعلیٰ ذات کے ہندو رامیشور جی کا غلام ہے۔ کئی برسوں سے ہریا رامیشور جی کی غلامی کرتا ہے۔ غلامی اس کے ذہن میں بس گئی تھی۔ وہ رامیشور جی سے بہت ڈرتا تھا۔ان کی طرف نظر اٹھاکر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ وہ روز ان کی بھینس کا دودھ دوہتا تھا۔ اور گوبر صاف کرتا تھا۔ رامیشور جی دی ہوئی قمیص پہنتاتھا اسے احساس تھا کہ اگر یہ قمیص پھٹ گئی تو نئی قمیص کون دے گا۔ 52سال سے وہ ان کی غلامی کر رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے وہ آزادی کا سوچتا لیکن پھر اس کاذہن رامیشور جی کی غلامی کی طرف چلاجاتا کہ غلامی میں ہی تحفظ ہے۔ آزادی میں بیروز گاری ہے۔ ہریا کا ایک بیٹا تلسی ہے جو باپ کے برخلاف آزاد ذہن کا مالک ہے ۔ 

اسے اپنے باپ کی غلامی اچھی نہیں لگتی۔ادھر ملک کو آزادی ملتی ہے۔ ہریجنوں کو حکومت گھر اور زمین دینے والی تھی۔ تلسی اسی طرح کے کاموں میں لگا ہوا تھا۔ تلسی کو حکومت کی جانب سے گھر ملتا ہے وہ گائے خرید لیتے ہیں ۔ جوان بیٹے کی ترقی اپنا گھر اپنی گائے اور بیٹے کی باتوں سے ہریا کے احساس کمتری میں کچھ کمی واقع ہوتی ہے۔تلسی اپنے باپ کی غلامانہ ذہنیت سے پریشان تھا۔ لیکن اس کا باپ ہریا وضعدار تھا پرانی باتوں کو آسانی سے بھلانے والا نہیں تھا۔ ایک دن رامیشور جی ہریا کے گھر کو دیکھ کر تعجب کرتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کیا تم ہمیں اپنے گھر میں نہیں بلائو گے۔

 ایک ہریجن کے گھررامیشور جی داخل ہوتے ہیں وہاں چینی کی چائے پیتے ہیں۔ ہریا کے ساتھ تصویر کھنچواتے ہیں۔ جس میں ان کی غرض تھی۔ کیوں کہ یہ تصویر ان کے سیاسی مستقبل میں مددگار ثابت ہونے والی تھی۔رامیشور جی کو ہریا سے زیادہ تلسی سے خطرہ تھا جو آزاد خیال تھا اور رامیشور جی کی غلامی کو نا پسند کرتا تھا۔رامیشور جی ہریجن کو اپنے قریب بلا کر بڑا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے انہوں نے اپنا منصوبہ ہریا کو سنایا کہ وہ تلسی کا اپنا داماد بنائیں گے۔ یہ سن کر ہریا کو تعجب ہوا اور وہ خیال ہی خیال میں اپنے آپ کو رامیشور جی کا سمدھی تصور کرنے لگے۔ 

جب ہریا نے تلسی کو رامیشور جی کی بات سنائی تو تلسی رامیشور جی کے گھر گیا اور صاف طور پر کہہ دیا کہ ’’ ساہوکار جی میں صاف صاف بات کرنے آیا ہوں میں آپ کی بیٹی سے شادی نہیں کروں گا۔سرکار نے ہم ہریجنوں کے جسموں کو آزاد تو ضرور کردیا ہے لیکن ہماری آتما اب تک غلام ہے‘‘۔میرا باپ ابھی تک آپ کی دی ہوئی قمیص کو تبرک کی طرح اٹھا کر رکھتا ہے۔ ساہوکار جی ہمیں وقت دیجیے تاکہ ہم بھی اس دنیا میں عزت کے ساتھ جئیں۔ رامیشور جی کو تلسی کی باتوں پر غصہ آتا ہے اور وہ تلسی کو بدتمیز کہتے ہوئے نوکروں سے اسے باہر نکالنے کے لیے کہتے ہیں اور خود کمرے کے اندر چلے جاتے ہیں۔

مرکزی خیال: 

   رفیعہ منظورالامین نے اس افسانے میں ہندوستان میں موجود ذات پات کے نظام کو پیش کیا۔ اور قدیم اور جدید نسلوں کے فرق کو بیان کیا۔ پہلے زمانے میں ہریجن اپنی ظاہری اور ذہنی غلامی سے آزاد نہیں ہوتے تھے۔ آزادی کے بعد دستور نے انہیں جو حقوق دئے نئی نسل انہیں پہچان کر سر اٹھا کر جینے کے قابل ہوئی۔ لیکن رامیشور جی جیسے لوگ آج بھی ہریجنوں کو نچلا دکھانے اور ان سے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لالچ میں رہتے ہیں۔ یہ افسانہ نچلی ذات کی اعلیٰ ذات پر ایک چوٹ ہے۔ قمیص غلامی کی علامت ہے جسے افسانہ نگار نے بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔

سوالات  I   

 1۔    رفیعہ منظورالامین کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں لکھیے۔

جواب:        (جواب کے لیے مصنفہ کے حالات کا مطالعہ کیجئے)

    2۔    اس افسانے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

    3۔    افسانہ’’قمیص‘‘ کے مرکزی خیال کی وضاحت کیجئے۔

    4۔    تلسی کے کردار پر روشنی ڈالیے۔

جواب:        (جواب کے لیے افسانے کا خلاصہ پڑھیں)

II    عبارت فہمی۔مندرجہ ذیل عبارت کا مطالعہ کریں اور ذیل میں دئے گئے سوالات کے جوابات لکھیے۔

    ’’ اپنے چھوٹے سے گھر کے آگے ایک روز رامیشور جی کو کھڑا دیکھ کر ہریا ہکا بھکا رہ گیا۔بہت قریب تھا کہ وہ اپنی پگڑی اتار کر ان کے قدموں میں رکھ دیتا کہ اچانک تلسی کی پھٹکار سے رک گیا۔اس نے بڑی کوشش کی کہ خود کو قابو میں کیا جائے۔’’ اب تو تم بڑے آدمی بن گئے ہوہریا‘‘۔

رامیشور جی نے خوش مزاجی سے کہا ۔ ہمیں اندر آنے کے لیے بھی نہیں کہو گے‘‘۔اس روز وہ نہ صرف ہریا کے گھر گئے بلکہ انہوں نے وہان چینی کی ابال کر بنائی ہوئی چائے بھی پی لی۔سارے ہریجنوں میں اس باتکا خوب چرچا ہوا۔اتنا ہی نہیں رامیشور جی نے وہاں مل بیٹھ کر اپنی کئی تصویریں بھی کھنچوائیں۔یہ تصویریں ان کے سیاسی کیریر کی تشکیل میں بڑی مددگارثابت ہوسکتی تھیں۔ان کی نظر مسلسل تلسی پر تھی۔جو سیاسی میدان میں ان کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا تھا۔

اسے رام کرنے کی انہوں نے ایک انوکھی ترکیب سوچی۔ جو ان کے امیج کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچاسکتی تھی۔ لیکن جب انہوں نے ہریا سے اس کا ذکر کیا تو وہ سناٹے میں آگیا۔تم سمجھتے کیوں نہیں ہو ہریا‘‘ رامیشورجی نے ہریا کو گلے لگاتے ہوئے کہا کہ۔ ہم میں اور تم میں کوئی فرق نہیں رہا۔تمہارا بیٹا میرا داماد بن رہا ہے۔

    1۔    ہریا کے گھر کون آیا تھا۔    (جواب:    رامیشور جی)

     2۔    تمام ہریجنوں میں کس بات کاچرچا تھا۔

جواب:        ہریا کے گھر رامیشور جی کے آنے ساتھ چائے پینے اور تصویریں کھنچوانے کا۔

    3۔    رامیشور جی نے تصویریں کیوں کھنچوائیں تھیں۔

جواب:        سیاسی میدان میں فائدے کے لیے ہریا کے ساتھ تصویریں کھنچوائی تھیں۔

    4۔    سیاسی میدان میں رامیشور جی کو کس سے خطرہ تھا۔

جواب:     تلسی سے

    5۔    تلسی کو قابو کرنے کے لیے رامیشور جی نے کیا ترکیب سوچی۔

جواب:        تلسی کو داماد بنانے کی۔ 



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے