Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

انار کے چودہ دانے سید محی الدین قادری زور

مصنف کا تعارف:
    ڈاکٹر محی الدین قادری زور( 1905-1962) حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے نامور محقق۔نقاد۔ افسانہ نگار۔ ادیب۔شاعر۔ماہر لسانیات اوردکنی تہذیب کے علمبردار گزرے ہیں۔1905ء میں حیدرآباد کے محلے شاہ گنج میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباء و اجداد میں ایک کبیر احمد رفاعی بھی تھے۔ان کے والد کا نام سید غلام محمد شاہ قادری الرفاعی تھا۔انہوں نے مدرسہ دارالعلوم اور پھر سٹی ہائی اسکول اور عثمانیہ کالج میں اعلی تعلیم حاصل کی1925ء میں بی اے اور1927ء میں ایم اے کیا۔ مزید تعلیم کے لیے برطانیہ گئے اور1929ء میں لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
    ڈاکٹر زور دکنی زبان و ادب اور دکنی تہذیب کے بڑے قدر شناس تھے۔انہیں سرزمین دکن سے والہانہ محبت تھی۔انہوں نے دکن کے کئی گمنام فنکاروں کو منظر عام پر لایا۔ انہوںنے دکنی زبان و ادب کے تحفظ کی خاطر حیدرآباد میں ادارہ ادبیات اردو قائم کیا۔ ان کی کتاب ’’ روح تنقید‘‘ فن تنقید پر پہلی کتاب ہے جو1925ء میں ان کے زمانہ طالب علمی میں شائع ہوئی۔ 1929ء میں ان کی تصنیف ’’ اردو شہ پارے‘‘ منظر عام پر آئی۔لسانیات پر ان کی اولین کتاب’’ ہندوستان لسانیات‘‘ اہمیت کی حامل ہے۔ڈاکٹر زور ایک اچھے انشاء پرداز اور افسانہ نگار بھی تھے۔انہوں نے حیدرآباد کی تاریخ اور تہذیب کو اجاگر کرتے تاریخی افسانے لکھے۔ ان کے افسانوں کے مجموعے’’طلسم تقدیر۔ سیر گولکنڈہ اور گولکنڈے کے ہیرے‘‘ہیں۔ کلیات قلی قطب شاہ کی تدوین ان کا اہم کارنامہ ہے۔اس کے علاوہ اردو کے اسالیب بیان۔فن انشاء پردازی۔ہندوستانی صوتیات۔عہد عثمانی میں اردو کی ترقی۔دکنی ادب کی تاریخ۔سرگزشت حاتم۔داستان ادب حیدرآباد۔محمود غزنوی کی بزم ادب۔حیدرآباد فرخندہ بنیاد۔میر مومن کے علاوہ مرقع سخن۔فیض سخن۔کیف سخن۔اور متاع سخن جیسے تصانیف ان کے نام ہیں۔انہوں نے ادارہ ادبیات اردو کی قلمی کتابوں کی فہرست چھ جلدوں میں شائع کی۔انہوں نے ماہنامہ سب رس جاری کیا جو آج تک پابندی سے نکل رہا ہے۔انہوں نے ہر سال یوم قلی قطب شاہ تقاریب کا اہتمام کیا۔ کشمیر میں ملازمت کے سلسلے میں گئے تھے۔ وہاں ان کی طبعیت خراب ہوئی۔ قلب پر حملے کے باعث 24ستمبر1962ء کو ان کا کشمیر میں انتقال ہوگیا۔اور وہیں مدفون ہیں۔شامل نصاب کہانی ڈاکٹر زور کے افسانوی مجموعہ’’ سیر گولکنڈہ ‘‘ سے ماخوذ ہے۔
خلاصہ
    ڈاکٹر محی الدین قادری زور( 1905-1962) حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے نامور محقق۔نقاد۔ افسانہ نگار۔ ادیب۔شاعر۔ماہر لسانیات اوردکنی تہذیب کے علمبردار گزرے ہیں۔انہوں نے حیدرآباد دکن کی تاریخ کے تحفظ کی خاطر کئی تاریخی و تہذیبی افسانے لکھے۔ ان کے افسانوی مجموعہ’’ سیر گولکنڈہ‘‘میں افسانہ’’ انار کے چودہ دانے‘‘ شامل ہے۔اس افسانے میں ڈاکٹر زور نے دکن کے بادشاہ ابوالحسن تاناشاہ کی زندگی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ بادشاہ اپنی زندگی کے شب و روز میں مست تھا۔ اس نے بڑی آرزئوں سے موسیٰ ندی کے کنارے چار محل تعمیر کروایا تھا۔ قدیم محل کے بالا خانے سے وہ چار محل کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔چار محل کی تعمیر جب مکمل ہوجاتی ہے تو بادشاہ اس محل میں منتقل ہونے سے قبل جشن کا اہتمام کرتا ہے۔ محل کے درمیان ایک حوض تھا جو پانی سے لبریز تھا اور حوض میں فوارے لگائے گئے تھے۔ سارے محل میں روشنیوں کا اہتمام کیا گیا تھا جس سے ہر طرف روشنی چھاگئی تھی۔محل میں ہاتھی دانت اور سیپیوں کے نقش ونگار تھے۔محل میںکام کرنے والے قطار بنائے کھڑے تھے کیوں کہ بادشاہ انہیں انعام و اکرام سے نوازنے والا تھا۔گولکنڈے کے مزدور خوش قسمت تھے کہ انہیں محلوں کی تعمیر کے دوران کافی انعام و اکرام ملا کرتا تھا۔عشاء کی نماز کے بعد بادشاہ بڑی دھوم دھام سے محل میں داخل ہوتا ہے۔ بادشاہ کی آمد پر آتش بازی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسے سلامی دی جاتی ہے۔مزدور سریلی آواز میں گیت گاتے ہیں۔ بادشاہ کشتی میں بیٹھ کر حوض میں گھومنے والا تھا۔ وہاں موجود لوگ بادشاہ کی خدمت میں لگے تھے۔ آتش بازی سے چاروں طرف روشنی چھائی ہوئی تھی۔ بادشاہ کشتی میں سوار ہوکر چارمحل کی خوبصورتی کا جائزہ لینے میں مگن رہتا ہے۔ اسی وقت اس کا پرانا دوست اور لنگوٹی یار چندا شاہ بادشاہ کے اور اس کے بزرگ حضرت شاہ راجو قتال کی جانب سے بھیجے گئے ایک تحفے کو لے کر چارمحل کے دروازے پرپہونچتا ہے۔ وہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ اس وقت محل میں جشن جاری تھا ۔ اور سپاہی اس غریب کو قریب جانے سے روک رہے تھے۔ اس نے وہیں سے اپنے پرانے یار بادشاہ تاناشاہ کو آواز دی۔ کشتی میں سوار بادشاہ تانا شاہ محل کے نظارے دیکھنے میں محو تھا۔اسے ایک لمحے کے لیے اندازہ ہوا کہ کہیں وہ خواب تو نہیں دیکھ رہا ہے جس میں اس کا پرانا دوست اسے آواز دے رہا تھا۔ جشن کی آوازوں کے درمیان ایک مرتبہ پھر جب اسے پرانے یار چندا شاہ کی آواز سنائی دی تو اس نے پلٹ کر دیکھا کہ واقعی اس کا دوست چندا شاہ آیا ہوا ہے۔ اور وہ فوری اس سے ملنا چاہتا ہے۔سپاہی اسے منع کر رہے تھے۔ اسی دوران بادشاہ کی کشتی کنارے تک پہونچ جاتی ہے۔ اس کا دوست جو فقیر لگ رہا تھا وہ فوری کشتی میں کود پڑا۔ لوگ یہ ماجرا دیکھتے رہ گئے۔ اس نے اپنی جھولی سے ایک انار نکالا اور اپنے قدیم دوست کے آگے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ پیرو مرشد نے بھیجا ہے۔ اور حکم دیا ہے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو تم سے ملوں اور تمہیں یہ انار مکمل کھلادوں۔‘‘ ابوالحسن تاناشاہ میلے کچیلے کپڑے پہنے اس فقیر سے گلے ملتا ہے۔اور اپنے مرشد کے بھیجے ہوئے انارکو سر آنکھوں پر رکھ کر اس میں سے پانچ دانے نکال کر منہ میں ڈالتا ہے۔ اسے انارکھٹا محسوس ہوتا ہے۔مرشد کے بھیجے ہوئے انار کو تھوک دینے کی مجال نہیں تھی اس نے بہ مشکل وہ دانے نگل لیے۔ فقیر اسے مزید دانے کھلانے لگا تو بادشاہ نے کہا کہ اسے رکھ دو بعد میں کھالوں گا۔ فقیر نہیں مانا اور کہا کہ پیرو مرشد نے ابھی سارا انار تمہیں کھلانے کے لیے بھیجا ہے۔ بادشاہ یہ کہنے پر پھر پانچ دانے کھاتا ہے۔ فقیر کے اصرار پر وہ مزید چار دانے کھاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ٹھیک ہے میں حضرت سے پوچھوں گا کہ یہ انار بعد میں کھانے کی اجازت ہے یا نہیں۔ چودہ دانے کھلانے کے بعد چندا شاہ حضرت شاہ راجو قتال بزرگ کے ہاں پہونچتا ہے۔ پیر و مرشد نے چندا شاہ کو دیکھتے ہی آواز دی اور پوچھا کہ کیا تانا شاہ نے پورا انار کھالیا۔ فقیر نے گھبراتے ہوئے کہا کہ بادشاہ کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی اس نے چند دانے کھائے ہیں اور اجازت طلب کی ہے کہ باقی دانے بعد میں کھائے گا۔ بزرگ نے غصے سے دریافت کیا کہ کمبخت نے آخر کتنے دانے کھائے ۔تب چندا شاہ کانپتے ہوئے کہتا ہے کہ جی۔۔ پانچ۔۔پانچ۔چار۔چودہ دانے کھائے ہیں۔بزرگ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اس کی قسمت می چودہ سال کی بادشاہت لکھی تھی‘‘۔
مرکزی خیال: اس افسانے میں ڈاکٹر زور نے دکن کے بادشاہ ابوالحسن تاناشاہ کی زندگی کا ایک واقعہ بیان کیا۔جس میں اس کے بزرگ حضرت شاہ راجو قتال کی جانب سے اسے ایک انار کھانے کے لیے بھیجنے کا ذکر ہے۔ انار کھٹا ہونے کے سبب وہ صرف چودہ دانے ہی کھاتا ہے۔ اور بزرگ افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی قسمت میں چودہ سال کی حکومت لکھی ہوئی ہے۔ یہ اس دور کے بزرگوں کا معاملہ تھا اور وقت کے بادشاہ بھی اپنے بزرگوں کا احترام کرتے تھے۔ اس افسانے سے معلوم ہوا کہ اگر بادشاہ اپنے بزرگ کی جانب سے بھیجے گئے کھٹے انار کے زیادہ دانے کھاتا تو اس کی قسمت میں زیادہ سال کی حکومت لکھی ہوتی۔ بہر حال تقدیر میں اس کی جتنے سال حکومت تھی اس نے اتنے ہی دانے کھائے۔ اس افسانے سے اس دور کی شاہی زندگی اور بزرگان دین کی کرامات کا اظہار ہوتا ہے۔
سوالات   I    دس سطروں میں جواب لکھیے۔
    1۔    انار کے چودہ دانے کس نے کس کو کھلائے۔ اس سے متعلق واقعہ لکھیے۔
    2۔    افسانہ انار کے چودہ دانے کا خلاصہ تحریر کیجئے۔
جواب:        (جواب کے لیے افسانے کا خلاصہ پڑھیں)
    3۔       ڈاکٹر زور کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں۔
جواب:        (جواب کے لیے سبق کے ابتدا میں دیا گیا ڈاکٹر زور کا تعارف پڑھیے)
II    عبارت فہمی
    ’’ قطب شاہی سلطنت کے زوال کے بعدآصف جاہی سلطنت کا قیام عمل میں آیا۔آصف جاہی حکمرانوں نے کم و بیش دوسو سال تک دکن پر حکمرانی کی۔نواب میر قمرالدین خاں آصف جاہ اول نے اس سلطنت کی بنیاد رکھی۔آصف جاہی سلسلے کے چھٹے حکمراں نواب میر محبوب علی خان کے دور میں ریاست میں تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔انہون نے ہی اردو کو ریاست کی سرکاری زبان قرار دیا۔آصف جاہ سابع میر عثمان علی خاںآصف جاہی سلطنت کے آخری فرماں روا تھے۔جن کا سب سے بڑا کارنامہ عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام ہے۔ جس کا ذریعہ تعلیم اردو تھا۔
    ایک لفظ یا جملے میں جواب لکھیے۔
    1۔    آصف جاہی حکومت کی بنیاد کس نے رکھی۔
جواب:         آصف جاہی حکومت کی بنیاد نواب قمرالدین خاں آصف جاہ اول نے رکھی۔
    2۔    آصف جاہی خاندان نے کتنے برسوں تک دکن پر حکومت کی۔
جواب:        آصف جاہی خاندان نے کم و بیش دوسو برس تک دکن پر حکومت کی۔
    3۔    اردو کو ریاست کی سرکاری زبان بنانے کا اعلان کس بادشاہ نے کیا۔
جواب:        اردو کو ریاست کی سرکاری زبان بنانے کا اعلان نواب میر محبوب علی خان
         آصف سادس نے کیا۔
    4۔    آصف جاہ سابع کس حکمراںکو کہتے ہیں۔
جواب:        میر عثمان علی خان بہادر کو آصف جاہ سابع کہتے ہیں۔
    5۔    عثمانیہ یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم کیا تھا۔
جواب:        عثمانیہ یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم اردو تھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے